عبادت گاہوں سے متعلق قانون کس کا تحفظ کرتا ہے ؟

   

کے وینکٹ رامنن
ایک وقت تھا جب حکومت ہند نے عبادت گاہوں سے متعلق قانون تحفظ مدون کیا تھا۔ یہ قانون آخر 1991 ء میں کیوں مدون کیا گیا؟ اس کی تاریخ نفاذ کیا ہے ؟ کیوں ایودھیا اراضی کو اس کے دائرہ کار میں شامل نہیں کیا گیا ۔
جب بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ اپنے نقطۂ عروج پر تھا تب 1990 ء کے اوائل میں وشواہندوپریشد ( وی ایچ پی ) اور دیگر ہندو تنظیموں نے دوسری اور مساجد پر بھی دعویٰ کیا جن میں وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی ساحل عیدگاہ شامل تھیں۔ اگرچہ ہندو کیمپ کے انتہاپسند ملک بھر میں واقع 300 مساجد پر اپنا دعویٰ پیش کرنے کی باتیں کرتے ہیں لیکن اُن لوگوں نے صرف ان دو مساجد کے تعلق سے ایجی ٹیشن شروع کرنے کی دھمکی دی تھی ۔ اُسی تناظر میں پی وی نرسمہا راؤ حکومت نے ستمبر 1991 ء میں ایک خصوصی قانون مدون کیاجس کے تحت تمام عبادت گاہوں کے 15 اگسٹ 1947 ء سے پہلے کے موقف کو منجمد کیا گیا یعنی 15 اگسٹ 1947 ء کو عبادت گاہوں کا جو موقف رہا وہ برقرار رکھا جائے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائیگی تاہم بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی کو مذکورہ قانون کے دائرہ کار میں شامل نہیں کیا گیا اور ایسا صرف اس لئے کیا گیا کیونکہ یہ طویل عرصہ سے قانونی کشاکش کا شکار رہا اور طویل مدت سے قانونی تنازعات میں گھرا رہا ۔اس کے علاوہ اس کامقصد بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی تنازعہ کو گشت و شنید کے دریعہ حل کرنے کا موقع فراہم کرنا بھی تھا ۔
قانون کامقصد کیا ہے ؟
اس قانون کا مقصد کسی بھی عبادت گاہ کے 15 اگسٹ 1947 ء کے موقف کو منجمد کرنا تھا یعنی 15 اگسٹ 1947ء میں جس عبادت گاہ کا جو موقف تھا اسے برقرار رکھا جائے ۔ اس قانون کا مقصد اس قسم کی عبادت گاہ کے اس مذہبی کردار کی برقراری یقینی بنانا تھا جو اُس دن ( 15 اگسٹ 1947 ء ) کو تھا ۔ بل کا مقصد یہ بھی تھا کسی بھی گروپ کی جانب سے کسی بھی عبادت گاہ کے ماضی کے موقف سے متعلق نئے دعویٰ کو روکا جائے ۔ اُسی وقت اِس اُمید کابھی اظہار کیا گیا یہ قانون سازی ملک میں ایک طویل عرصہ تک فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تحفظ میں ممد و معاون ثابت ہوگی ۔
اُس وقت کے وزیرداخلہ ایس بی چوان نے 10 ستمبر 1991 ء کو لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے مذکورہ بل کے بارے میں کچھ یوں کہا تھا ’’اس بل یا قانون کو ہم ہندوستان کی بھائی چارگی ، امن و محبت کی شاندار و عظیم روایات کو فروغ دینے والے بل کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں امن و آشتی اور اتحاد و یکجہتی کی ہماری روایات ماقبل آزادی کی مدت کے دوران شدید دباؤ کا شکار ہوگئیں تھیں ۔ ان حالات میں ہم نے ماضی کے زخموں کو مندمل اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی امن و آشتی سے متعلق اپنی روایات کی بحالی کی کوشش کی ‘‘۔ دوسری طرف کانگریس نے بھی لوک سبھا انتخابات 1991 ء کے اپنے انتخابی منشور میں اس طرح کی قانون سازی کا وعدہ کیا یہاں تک کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے کئے گئے صدارتی خطاب میں بھی اس کا حوالہ دیا گیا ۔
اس قانون کی اہم خصوصیات
یہ قانون اعلان کرتا ہے کہ کسی بھی عبادت گاہ کا مذہبی کردار ہمیشہ ویسا ہی رہے گا اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی ۔ یہ قانون کہتا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی عبادت گاہ کے سابقہ موقف یا مقام کو وہ کسی بھی مذہبی مسلک ہو اسے کسی دوسرے مسلک یا فرقہ کی عبادت گاہ میں بدل نہیں سکتا ۔ یہ قانون اعلان کرتا ہے کہ تمام مقدمات اپیلیں یا کوئی اور کارروائی کسی عبادت گاہ کے موقف یا مقام یا کردار کو بدلنے کی مکلف نہیں ہوگی اور 15 اگسٹ 1947 ء کے بعد اس سلسلہ میں کسی اپیل یا مقدمہ کی درخواست کی سماعت نہیں ہوگی اور جوں ہی 15 اگسٹ 1947 ء کے قانون کا نفاذ عمل میں آئے گا یہ تمام چیزیں روک دی جائیں گی اس کے آگے کوئی بھی کارروائی نہیں کی جائے گی ۔ ان قوانین کا اطلاق قدیم یا تاریخی آثار قدیمہ یا آثار قدیمہ کے مقامات پر نہیں ہوگا جو 1958 ء کے قدیم عجائب اور آثار قدیمہ کے تحت ہوں گے ۔ اس قانون کا بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی پر اطلاق نہیں ہوتا ۔
آیا اس قانون میں کوئی تعزیری گنجائش پائی جاتی ہے ؟
جو کوئی بھی کسی عبادت گاہ کے مقام پر عائد قانون کی خلاف ورزی کرے گا وہ قابل دست انداز قانون ہوگا ۔ اس قانون کے تحت اسے 3 سال کی قید بامشقت اور کسی بھی پابندی سے متعلق جرمانہ کی طرح اس پر بھی جرمانہ عائد کیا جائے گا ۔ اس جرم میں ساتھ دینے یا سازش میں شامل رہنے والوں کی سزا بھی اس حد تک ہوگی ۔
اُس وقت اپوزیشن نے کس طرح ردعمل ظاہر کیا تھا ؟
بی جے پی نے اس قانون سازی کی شدت سے مخالفت کی تھی اور اس کی قیادت نے یہ کہتے ہوئے اس بل کی مذمت کی تھی کہ یہ ’’جعلی سیکولرازم‘‘ کی ایک مثال ہے جو ہمارے ملک میں جاری ہے ۔ بی جے پی نے اس قانون سازی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اُسے اقلیتوں کی چاپلوسی سے تعبیر کیا تھا ۔ پارلیمنٹ میں بی جے پی نے اس بل کے مدون کرنے سے متعلق ایوان کی اہلیت پر بھی سوال اُٹھائے۔ اس کا کہنا تھا کہ ایسا قانون مرکز کس طرح مدون کرسکتا ہے جو مقدس مقامات قبرستانوں سے متعلق ہے جو ریاست کی فہرست میں شامل ہے ۔ تاہم مرکزی حکومت نے یہ کہتے ہوئے بی جے پی کے اعتراض کو مسترد کردیا کہ وہ قانون کی تدوین کیلئے یونین لسٹ کی انٹری 97 کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرسکتی ہے ۔
کیا الہٰ آباد ہائیکورٹ کے 2010 ء کے فیصلے میں اس قانون کا کوئی حوالہ پایا جاتا ہے ؟
جسٹس دھرم ویرشرما نے جو ہائیکورٹ میں ایودھیا مقدمہ کا فیصلہ کرنے والی سہ رکنی بنچ میں شامل تھے انھوں نے مقدمہ میں حسب ذیل انداز میں اُس قانون کا حوالہ دیا تھا : ’’1991 کا عبادت گاہوں کے مقامات سے متعلق ایکٹ ان مقدمات کو ممنوعہ قرار نہیں دیتا جن میں اس ایکٹ یا قانون کی تدوین یا نفاذ سے پہلے کی مدت کا حوالہ دیا گیا ہو اس ایکٹ کے نفاذ سے قبل اس استحقاق کو وضع کیاگیا ہے اور اسے تسلیم بھی کیا گیا ہو تاہم سپریم کورٹ نے اس تصور پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ یہ تصور قانون کے منشا و مقصد کے بالکل خلاف ہے ۔ جسٹس شرما کا استنباط تو دفعہ 4(2) کے بالکل متضاد تھا اس نے اُسے غلطیوں پر پُر قرار دیکر مسترد کردیا تھا ۔
گیان واپی مسجد اور عیدگاہ کا موجودہ موقف کیا ہے ؟
واراناسی کی ایک ضلعی عدالت نے مندر کے ایک ٹرسٹ کے گیان واپی مسجد کے مقام پر دعویٰ کے مقدمہ کو قبول کرلیا ہے تاہم ضلعی عدالت کے حکم کو الہٰ آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں ہائیکورٹ نے اُس پر قانونی پابندی کا حوالہ دیا تھا جس کے تحت کسی بھی عباد ت گاہ کے مقام کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور یہ معاملہ اب تک عدالت میں زیرالتواء ہے۔ شاہی عیدگاہ جو متھرا میں کرشنا مندر کے قریب واقع ہے وہ بھی کرشنا جنم بھومی سنستھا اور عیدگاہ کمیٹی کے درمیان ایک معاہدہ کے تحت واقع ہے ۔ اس عیدگاہ کی متنازعہ اراضی کی ملکیت پر کرشنا جنم بھومی سنستھا کا قبضہ ہے اور اس کا انتظام عیدگاہ کمیٹی کے ہاتھوں میں ہے ۔