عبادت گاہ کس کی ہے عبادت کون کرتا ہے

,

   

رام مندر … امیت شاہ نے انتخابی مہم چھیڑدی
اتراکھنڈ … مسلم خاندانوں کو سپریم کورٹ سے راحت

رشیدالدین
لوک سبھا چناؤ کا بگل بج گیا۔ امیت شاہ نے تریپورہ میں ریالی سے خطاب کرتے ہوئے عام انتخابات کے ایجنڈہ کو ملک کے روبرو پیش کردیا۔ وزیر داخلہ نے یکم جنوری 2024 ء تک ایودھیا میں رام مندر کے تیار ہوجانے کا اعلان کرتے ہوئے بی جے پی کی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ عام انتخابات کو ایک سال 4 ماہ باقی ہیں ، پھر اچانک رام مندر کی تیاری کے اعلان کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ 1990 ء میں رام مندر تحریک کے ذریعہ بی جے پی نے قومی سطح پر گرفت کو مضبوط کیا تھا اور اقتدار بھی حاصل ہوا۔ اسی رام مندر کے سہارے بی جے پی مرکز میں اقتدار کی ہیٹ ٹرک کرنا چاہتی ہے۔ امیت شاہ سیاسی چالبازیوں کے ذریعہ بی جے پی کے چانکیہ کہے جاتے ہیں اور الیکشن سے 16 ماہ قبل رام مندر کے بارے میں اعلان محض اتفاق نہیں بلکہ سوچی سمجھی پلاننگ کا حصہ ہے ۔ کام اور کارناموں کی بنیاد پر اقتدار میں واپسی کا کوئی امکان نہیں ، لہذا بی جے پی ہندوتوا ایجنڈہ پر واپس ہوچکی ہے۔ لوک سبھا چناؤ مئی 2024 ء میں مقرر ہے اور رائے دہی سے چار ماہ قبل رام مندر کے افتتاح سے ظاہر ہے بی جے پی کو انتخابی فائدہ حاصل ہوگا۔ امیت شاہ ریالی میں رام مندر کے بارے میں جب اعلان کر رہے تھے ، وہ بظاہر پرجوش دکھائی دے رہے تھے لیکن اندرونی خوف صاف جھلک رہا تھا۔ وہ خوف کسی اور کا نہیں بلکہ راہول گاندھی کا تھا۔ امیت شاہ کانگریس کا نام لئے بغیر بھی رام مندر کی تکمیل کا اعلان کرسکتے تھے لیکن انہوں نے کانگریس اور راہول گاندھی دونوں کو نشانہ بنایا۔ یہ خود ثابت کرتا ہے کہ بی جے پی دراصل راہول کی بھارت جوڑو یاترا سے خوفزدہ ہے، لہذا شکست کے خوف سے ابھی سے ہندوتوا ایجنڈہ طئے کردیا گیا۔ امیت شاہ کا کہنا تھا کہ آزادی کے بعد سے کانگریس رام مندر کی تعمیر روکنے عدالتوں میں مسئلہ کو الجھاتی رہی ۔ نریندر مودی آئے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ۔ 2019 ء کا حوالہ دیتے ہوئے امیت شاہ نے کہا کہ راہول گاندھی کانگریس اور میں بی جے پی کا صدر تھا ، راہول گاندھی رام مندر کی تعمیر کے بارے میں سوال کرتے رہے۔ راہول گاندھی کان کھول کر سن لیں کہ یکم جنوری 2024 ء تک رام مندر تیار ہوجائے گا۔ ملک میں بی جے پی کے خلاف ناراضگی میں اضافہ اور اپوزیشن اتحاد کی کوششوں سے بی جے پی کو شکست کا اندیشہ لاحق ہوچکا ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی سے بی جے پی اور مرکزی حکومت کے ایوانوں میں ہلچل ہے۔ کورونا وباء کا خوف دلاکر راہول گاندھی کو یاترا سے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکامی ہوئی۔ یاترا سے راہول کی بڑھتی مقبولیت پر روک لگانے کیلئے امیت شاہ نے پھر ایک بار ہندوتوا ایجنڈہ چھیڑ کر عوام کی توجہ یاترا سے ہٹانے کی کوشش کی ہے ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس کا نعرہ لگانے والی بی جے پی نے رام مندر مسئلہ کے ذریعہ عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 9 نومبر 2019 ء کو چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں بابری مسجد کی اراضی کو رام مندر کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے 5 اگست 2020 ء کو بھومی پوجا کرتے ہوئے مندر کے تعمیری کام کا آغاز کیا جس پر 1800 کروڑ کا خرچ آسکتا ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں سپریم کورٹ کا یہ عجیب فیصلہ تھا ، جس میں عدالت نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مندر کے حق میں فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے انہدام کو غیر قانونی تسلیم تو کیا لیکن فیصلہ آستھا کی بنیاد پر ہوا ۔ حالانکہ ثبوت اور گواہ بابری مسجد کے حق میں تھے۔ جسٹس رنجن گوگوئی کو فیصلہ کے عوض راجیہ سبھا کی رکنیت دی گئی جو انعام کی دوسری شکل ہے ۔ مبصرین کے مطابق امیت شاہ نے رام مندر کے اعلان کے لئے جس وقت کا تعین کیا ہے ، وہ راہول گاندھی سے خوف کو ظاہر کرتا ہے ۔ اگر ملک کی صورتحال کو فرقہ وارانہ رنگ نہیں دیا گیا تو اس سے بی جے پی کو نقصان کا اندیشہ تھا ۔ اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ نتیش کمار نے راہول گاندھی کو وزارت عظمی کے مشترکہ امیدوار کی تجویز کی تائید کردی۔ مودی نے 8 سال قبل جن موضوعات پر اقتدار حاصل کیا تھا، تیسری میعاد کے لئے وہی موضوعات کو دہرایا جائے گا ۔ رام مندر کی تعمیر تو جنوری 2024 ء تک مکمل ہوجائے گی اور کشمیر میں دفعہ 370 کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب رہی بات یکساں سیول کوڈ کی تو 2024 الیکشن میں یہ اہم انتخابی موضوع بن سکتا ہے۔ ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی نے جس رام مندر تحریک کے ذریعہ بی جے پی کو اقتدار تک پہنچایا تھا ، آج وہ زندہ رہ کر بھی گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جس سیاسی گروہ نے اپنے شاگرد کو سیاسی میدان میں چلنا سکھایا، اسی ناخلف شاگرد نے اپنے سیاسی استاد کی کرسی چھین لی۔ رام مندر کے لئے اڈوانی کی رتھ یاترا نے ملک میں فسادات کو ہوا دی تھی اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھی ملک میں نفرت کی آگ بھڑکائی گئی۔ اسی زمانے میں اڈوانی ، جوشی اور اشوک سنگھل ملک میں ہندوتوا کی علامت تھے اور ہندوتوا ایجنڈہ عروج پر سمجھا جاتا تھا لیکن مودی ، امیت شاہ جوڑی نے تو جارحانہ فرقہ پرستی کی تمام حدود کو پار کردیا ہے۔ ملک کو مذہب کے نام پر بانٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ مودی تیسری میعاد کیلئے وزارت عظمی کا خواب دیکھ رہے ہیں اور دہلی کا تخت رام مندر سے ہوکر گزرتا ہے۔ اس بات سے عوام بھی بخوبی واقف ہیں۔ بابری مسجد کے مقام پر تعمیر کی جانے والی مندر جس طرح غیر قانونی ہے، اسی طرح ملک کے وزیر داخلہ کا مندر سے متعلق اعلان نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر دستوری ہے۔ غیر قانونی مندر کے حق میں مرکزی وزیر داخلہ کی زبان بدلتے اقدار اور ہندوتوا ایجنڈہ کے عروج کی مثال ہے۔ جس طرح ہٹلر کا نازی ازم سب کچھ تھا، اسی طرح مودی ۔امیت شاہ جوڑی کا ہندو ازم ہے جس کا خوف دلاکر اقتدار کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
امیت شاہ کے رام مندر سے متعلق اعلان پر سیکولر اور جمہوری طاقتوںکی حکمت عملی کیا ہوگی، اس کے قطع نظر مسلمانوں کو اپنا موقف اختیار کرنا ہوگا ۔ گزشتہ 8 برسوں سے ملک میں مذہبی ، سیاسی اور سماجی مسلم قیادتیں رہنمائی کے موقف میں نہیں ہیں۔ قیادتوں میں اتحاد کی کمی اور حکومت کا خوف صاف طورپر دکھائی دے رہا ہے جس کے نتیجہ میں ہر کوئی مصلحتوں کا شکار ہے۔ مودی حکومت کے کسی بھی فیصلہ اور ہندوتوا کے ہر حملہ پر مزاحمت کا کوئی تصور باقی نہیں ہے اور مسلمان ہر ظلم کو سہنے کا عادی بن چکا ہے۔ جارحانہ فرقہ پرستی کے اس سیلاب کو روکنے کیلئے مسلمانوںکو روایتی انداز چھوڑ کر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حکمت عملی تیارکرنی ہوگی۔ جماعتوں اور تنظیموں کے ذمہ دار اپنا محاسبہ کریں اور ضمیر ٹٹولنے کی کوشش کریں کہ وہ مسلمانوںکی رہنمائی کی ذمہ داری کس حد تک نبھا رہے ہیں۔ مسلمانوں کو روایتی قیادت سے ابھرنے کی ضرورت ہے اور آنے والے حالات کا پامردی اور حوصلے سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ اگر مسلمان ایمان کو مضبوط رکھیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں باطل سے مزاحمت کا طریقہ کار اختیار کریں تو انہیں شرمندگی کا احساس نہیں ہوگا اور وہ ہمت و حوصلے سے سر اٹھاکر ہندوستان میں زندگی بسر کرپائیں گے۔ مسلمانوں سے نفرت کا حال تو یہ ہے کہ جہاں کہیں ان کی آبادی نظر آئے، اس پر بلڈوزر چلانے کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں 50 برس سے زائد کے عرصہ سے موجود 4300 مسلم خاندان بی جے پی حکومت کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے ہیں۔ ریلوے کی اراضی پر ناجائز قبضہ کا الزام عائد کرتے ہوئے اتراکھنڈ ہائی کورٹ سے فیصلہ حاصل کرلیا گیا اور 10 جنوری انہدامی کارروائی کی تاریخ طئے کی گئی۔ 50 ہزار سے زائد افراد کو بے گھر اور بے آسرا بنانے کیلئے نہ صرف بی جے پی بلکہ گودی میڈیا کے قومی چیانلس بے چین تھے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ہلدوانی کو دوسرا شاہین باغ کہا جانے لگا۔ گودی میڈیا کے چاٹوکار اینکرس نے غریب مسلم خاندانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سپریم کورٹ نے آخرکار راحت دی ہے اور حکومت کو پابند کیا ہے کہ وہ تمام خاندانوں کی بازآبادکاری کے بعد اراضی حاصل کرنے کی کارروائی کرے۔ سپریم کورٹ نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فیصلہ سناتے ہوئے غریب مسلمانوں کو بے گھر ہونے اور ان کے گھروں کو اجڑنے سے بچالیا ہے ۔ مظلوموں اور بے سہارا افراد کیلئے سپریم کورٹ امید کی آخری کرن ہے اور عدالت عظمیٰ نے یہ ثابت کردیا کہ ملک میں عدلیہ ابھی بھی آزاد اور غیر جانبدار ہے۔ منور رانا کا یہ شعر حالات حاضرہ پر صادق آتا ہے ؎
ہے میرے دل پہ حق کس کا حکومت کون کرتا ہے
عبادت گاہ کس کی ہے عبادت کون کرتا ہے