عبادت گاہ کس کی ہے عبادت کون کرتا ہے

   

بابری مسجد فیصلہ پر شبہات … جسٹس چندر چوڑ کے منہ میں بی جے پی کی زبان
بہار میں تبدیلی کا آغاز … راہول گاندھی سے بی جے پی خوفزدہ

رشیدالدین
بابری مسجد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ پھر ایک مرتبہ سوالات کے گھیرے میں۔ بابری مسجد کی شہادت کو 33 سال اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کو 6 سال مکمل ہوگئے لیکن آج بھی مسجد کو انصاف کا انتظار ہے۔ سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے ایک تازہ ٹی وی انٹرویو میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی گتھی کو مزید الجھادیا ہے۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ فیصلہ قانون اور دستور کی بنیادوں پر دیا گیا تھا یا کسی کے دباؤ میں ؟ عدلیہ کے بعض فیصلے طویل عرصہ تک فیصلہ سنانے والے ججس کا تعاقب کرتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح بابری مسجد کا فیصلہ ڈی وائی چندر چوڑ کے انٹرویو کے بعد پھر ایک مرتبہ موضوع بحث بن چکا ہے ۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی زیر قیادت پانچ رکنی بنچ میں جسٹس چندر چوڑ شامل تھے جس نے مسجد کی اراضی کو رام مندر کی تعمیر کیلئے الاٹ کرنے کا فیصلہ سنایا تھا ۔ فیصلہ میں شامل گوگوئی راجیہ سبھا کے رکن ، جسٹس عبدالنذیر آندھراپردیش کے گورنر اور جسٹس اشوک بھوشن نیشنل کمپنی لاء اپیلیٹ اتھاریٹی کے صدرنشین مقرر کئے گئے ۔ باقی دو ججس میں جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس چندر چوڑ دونوں چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز کئے گئے ۔ ججس چاہے کسی بھی سطح کے ہوں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے فیصلوں کا انہی آدھار پر دفاع کرتے ہیں جن کا ذکر فیصلہ میں کیا گیا ہو لیکن جسٹس چندر چوڑ نے فیصلہ سے بالکل ہٹ کر کچھ ایسی باتیں کہی ہیں جو ان کے عزائم کو ظاہر کرتی ہیں۔ جسٹس چندر چوڑ نے بابری مسجد کے بارے میں جو کچھ کہا ، وہ دراصل بی جے پی اور آر ایس ایس کی زبان ہے۔ چندر چوڑ نے دراصل سپریم کورٹ کے فیصلہ سے اختلاف کرتے ہوئے یہ منطق پیش کی ہے کہ بابری مسجد دراصل مندر کو منہدم کر کے تعمیر کی گئی تھی۔ سابق چیف جسٹس کے مطابق آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی رپورٹ میں اس کے شواہد موجود ہیں۔ 9 نومبر 2019 کو 900 سے زائد صفحات پر مشتمل فیصلہ پر جسٹس چندر چوڑ کے بھی دستخط ہیں جس میں مندر کے انہدام کے ذریعہ مسجد کی تعمیر کے حق میں آرکیالوجیکل سروے کے ثبوتوں کو کمزور قرار دیا گیا۔ اگر چندر چوڑ کا موقف اجتماعی فیصلہ کے ساتھ نہیں تھا تو پھر انہوں نے اختلافی فیصلہ کیوں نہیں لکھا جس کا انہیں اختیار حاصل تھا۔ فیصلہ کے 6 سال اور اپنے ریٹائرمنٹ کے ایک سال بعد آخر بی جے پی اور آر ایس ایس کی زبان میں بات کرنے کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ دو سال تک چیف جسٹس کے عہدہ پر رہنے والے چندر چوڑ کے بارے میں عوام اور خود عدلیہ سے وابستہ افراد کی رائے مختلف تھی لیکن نیوز لانڈری کے صحافی سرینواسن جین نے انہیں بے نقاب کردیا۔ سرینواسن جین نے اپنے سوالات سے چندر چوڑ کو کچھ اس طرح گھیر لیا کہ وہ من کی بات کہنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کا یہ دعویٰ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے برعکس ہے۔ پانچ ججس میں فیصلہ کس نے لکھا تھا ، اس پر آج تک بھی راز کے پردے پڑے ہیں لیکن فیصلہ میں واضح کیا گیا کہ بابری مسجد کا 6 ڈسمبر 1992 کو انہدام غیر قانونی تھا۔ مسجد میں مورتیاں چوری چھپے رکھی گئیں۔ مندر کو منہدم کر کے مسجد کی تعمیر کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے ۔ عدالت نے سب کچھ مسلمانوں کے موقف کی تائید میں کہا لیکن آخر میں اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اراضی کو رام مندر کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا گیا ۔ پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ ثبوتوں اور دلائل کے بجائے آستھا کی بنیاد پر تھا۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ آرکیالوجیکل سروے نے کسی قدیم عمارت کی بنیادوں پر مسجد کی تعمیر کی بات کہی ہے لیکن جس ملبہ پر مسجد تعمیر کی گئی اس کے مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ فیصلہ میں یہاں تک کہا گیا کہ جس ڈھانچہ پر بابری مسجد کی تعمیر کا دعویٰ کیا جارہا ہے ، وہ تقریباً 400 سال قدیم ہے لہذا بابری مسجد اور مذکورہ ڈھانچہ کے درمیان چار صدی کا فاصلہ ہے، یہ بات بھی طئے نہیں ہے کہ جس ملبہ پر مسجد تعمیر کی گئی ، وہ مندر تھی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسٹس چندر چوڑ کے پاس آرکیالوجیکل سروے کی وہ کونسی رپورٹ ہے جس کی بنیاد پر وہ نیا دعویٰ پیش کر رہے ہیں۔ چندر چوڑ نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھا کہ رنجن گوگوئی نے فیصلہ کی رات ہوٹل تاج میں ڈنر دیا جس میں چائنیز فوڈ اور قیمتی وائن سے تواضع کی گئی تھی لیکن سرینواسن جین کے انٹرویو میں انہوں نے سوانح حیات میں تحریر شدہ دعوت سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم فیصلہ کا جشن منانے نہیں گئے تھے۔ اگر وہ دعوت فیصلہ کی خوشی میں نہیں تھی تو پھر ہر فیصلہ کے بعد کیا اسی طرح کی دعوت دی جاتی ہے ؟ کوئی بھی جج ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے فیصلوں کا دفاع کرتا ہے لیکن چندر چوڑ نے اپنے بیان سے فیصلہ پر شبہات پیدا کردیئے ہیں۔ اگر فیصلہ میں درج باتوں سے انہیں اختلاف تھا تو وہ اختلافی نوٹ شامل کرسکتے تھے۔ 6 سال بعد قانونی نکات کے بجائے مخصوص سیاسی نظریات کے مطابق بیان دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ دفعہ 370 کی برخواستگی اور دیگر فیصلے جس میں چندر چوڑ شامل تھے ، انہوں نے دستور اور قانون کی بنیاد پر نہیں بلکہ کسی کے دباؤ میں فیصلہ سنایا تھا۔ جسٹس چندر چوڑ کی غیر جانبداری اس وقت بے نقاب ہوچکی تھی جب وزیراعظم نریندر مودی گنیش پوجا میں شرکت کیلئے ان کی قیامگاہ پہنچے تھے۔ چندر چوڑ آخر کس کو خوش کرتے ہوئے خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ سرینواسن جین نے دراصل اپنے سوالات کے ذریعہ کچھ ایسا محاصرہ کردیا تھا کہ چندر چوڑ کی زبان پر دل کی بات آگئی ۔ سپریم کورٹ فیصلہ کے برخلاف نظریات کے اظہار پر جسٹس چندر چوڑ کو قوم سے وضاحت کرنی چاہئے ۔ ویسے بھی گزشتہ دس برسوں میں عدلیہ پر مودی حکومت کے دباؤ کی کئی مثالیں سامنے آچکی ہیں۔ ایسے میں چندر چوڑ کو بھی دباؤ سے استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا اور ان کے حقیقی نظریات عوام کے سامنے آچکے ہیں۔ مندر سے 25 کیلو میٹر کی دوری پر 5 ایکر اراضی پر مسجد کی تعمیر کا سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا لیکن آج تک مسجد کی ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی کیونکہ اراضی تو ہے لیکن سرکاری محکمہ جات نے این او سی جاری نہیں کیا ہے۔ جسٹس چندر چوڑ کو مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں حکومت سے سوال کرنا چاہئے۔
بہار میں کیا واقعی تبدیلی کا آغاز ہوچکا ہے ؟ ووٹ چوری کے خلاف راہول گاندھی کی یاترا کے بعد بہار کا سیاسی ماحول یکایک تبدیل ہوچکا ہے اور بی جے پی ۔ جے ڈی یو اتحاد نے الیکشن سے قبل ہی اپنی شکست کو تسلیم کرلیا ہے ۔ ووٹ چوری معاملہ میں راہول گاندھی نے جو ثبوت پیش کئے اگرچہ وہ کرناٹک اور مہاراشٹرا کے ہیں لیکن بہار میں چناؤ کے پیش نظر عوام نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ اگر غفلت میں رہیں تو بی جے پی یہاں بھی ووٹ چوری کے ذریعہ دوبارہ اقتدار حاصل کرلے گی ۔ بہار میں انڈیا الائنس کی گرفت کو مزید مستحکم کرنے کیلئے آل انڈیا کانگریس پارٹی کا سیشن منعقد کیا گیا ۔ مارچ 1940 میں بہار کے رام گڑھ میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا سیشن منعقد ہوا تھا اور مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کے صدر تھے ۔ 85 سال بعد پٹنہ کے صداقت آشرم میں کانگریس کا سیشن منعقد ہوا اور عوام کو دستور اور جمہوریت کے تحفظ کیلئے تیار رہنے کا مشورہ دیا گیا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی صدارت میں منعقدہ اجلاس اور 85 سال بعد ملکارجن کھرگے کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں ایجنڈہ میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ 1940 کے اجلاس میں ملک کے لئے دستور تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور 85 سال بعد دستور کے تحفظ کی مہم شروع کی گئی ہے۔ دستور کی تیاری کے ذریعہ ہر شہری کو ایک ووٹ کا حق دیا گیا لیکن آج بی جے پی ووٹ چوری کے ذریعہ دستوری حق کو سلب کر رہی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے 1940 کے صدارتی خطبہ میں مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک اور فرقہ پرستی کے چیالنجس کے بارے میں عوام کو چوکس کیا تھا۔ پتہ یہ چلا کہ آزادی سے قبل سے ہی فرقہ پرست طاقتیں عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش کر رہی تھی۔ مولانا آزاد نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ مجھے فخر ہے کہ میں ہندوستانی ہوں اور ہندوستان کا لازمی جز ہوں ۔ میرے بغیر ہندوستان کا عظیم ڈھانچہ ادھورا رہے گا۔ مولانا آزاد نے دستور میں مذہبی آزادی کی شمولیت کا پہلے ہی اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی ہندو یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں ہندوستانی ہوں اور ہندو دھرم پر عمل پیرا ہوں۔ ٹھیک اسی طرح ہر مسلمان یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ ہندوستانی ہے اور اسلام پر عمل پیرا ہے۔ مولانا آزاد کے خطاب کی جھلک پٹنہ کے صداقت آشرم میں اے آئی سی سی سیشن کی قرارداد میں دیکھنے کو ملی ۔ جس دستور اور جمہوریت کا مولانا آزاد نے حوالہ دیا تھا آج بی جے پی اور آر ایس ایس اس پر حملہ آور ہے۔ بہار میں راہول گاندھی کی محنت سیاسی مبصرین کے مطابق ضرور رنگ لائے گی اور انڈیا الائنس کی بہار میں اقتدار میں واپسی کے امکانات روشن ہیں۔ بہار میں نتیش کمار کے خلاف عوامی ناراضگی ، عام جلسوں میں ان کے خلاف نوجوانوں کے نعروں سے صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے انٹرویو سے ہمیں منور رانا کا یہ شعر یاد آگیا ؎
ہے میرے دل پہ حق کس کا حکومت کون کرتا ہے
عبادت گاہ کس کی ہے عبادت کون کرتا ہے