عبوری بجٹ ۔ ووٹروں کو سرکاری رشوت!

   

پی چدمبرم

کوئی پُراعتماد حکومت ہوتی تو عبوری بجٹ کو غیراہم موقع بناتی جو کہ ہونا بھی چاہئے، لیکن اعتماد ہی وہ خاصیت ہے جس کی موجودہ بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت میں کمی پائی جاتی ہے۔ بی جے پی ارکان پارلیمان کے اُداس چہروں کو ہی دیکھ لیجئے، خاص طور پر راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور اترپردیش کی ریاستوں کے ایم پیز؛ اور آپ مجھ سے اتفاق کروگے۔ لہٰذا، وزیراعظم نریندر مودی نے فیصلہ کیا کہ عبوری بجٹ پیش کرنے کے موقع کو نمایاں ایونٹ میں تبدیل کردیا جائے۔ عبوری وزیر فینانس نے ایسے کسی کھلاڑی کے مانند جسے بس اپنی پہلی انڈیا کیاپ حاصل ہوئی (کریئر کی شروعات)، اس موقع کو زبردست نظارہ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ اس کا محرک یہ رہا کہ حکومت کے آخری موقع میں جوش پیدا کیا جائے۔ اس کا نتیجہ بدقسمتی سے بہت مختلف ہوسکتا ہے جو کچھ وزیراعظم اور عبوری وزیر فینانس نے ارادہ کیا تھا۔
دیدہ دلیری
وعدوں کی قلعی کھلنے لگی ہے۔ یہ بڑا وعدہ ملاحظہ کیجئے کہ پی ایم۔ کسان اسکیم کے تحت 2 ہیکٹر یا کم اراضی کی ملکیت رکھنے والے ہر کسان کو سالانہ 6,000 روپئے تین اقساط میں دیئے جائیں گے۔ حکومت نے اس اسکیم کو یکم ڈسمبر 2018ء کے استقدامی اثر کے ساتھ متعارف کراتے ہوئے الیکشن کمیشن (ای سی) کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے؟ کیا حکومت 2,000 روپئے کی پہلی قسط کسان کے بینک کھاتے میں یکم ڈسمبر 2018ء کے استقدامی اثر سے جمع کرے گی اور بینکوں کو ہدایت دے گی کہ وہی تاریخ سے سود ادا کریں؟ پہلی قسط کے تعلق سے ای سی ہوسکتا ہے بے چارگی کا اظہار کرے بشرطیکہ اسے انتخابی ضابطہ اخلاق لاگو ہوجانے سے قبل تقسیم کردیا جائے، لیکن اگر ای سی نے دوسری قسط نہیں روکی تو عوام یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ ایک اور کلیدی ادارہ کو کمزور کیا جاچکا یا کنٹرول میں لیا جاچکا ہے۔
رشوت
اب، پی ایم۔ کسان اسکیم کے محاسن کا جائزہ لیتے ہیں: حاشیہ پر موجود اور چھوٹے تمام کسانوں (2 ہیکٹر یا کم اراضی کے مالک) کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ ملک میں جملہ زرعی اراضی کا 86.2 فیصد ہوتا ہے۔ جہاں یہ اہم ہے کہ کس کا احاطہ ہوا ہے، وہیں کس کا احاطہ نہیں ہورہا، وہ بھی اہمیت کا حامل ہے:
n اراضی کا مالک کسان چاہے وہ کاشت کرنے والا کسان ہو یا کاشتکاری سے دستبردار زمیندار ہو، اُس کا احاطہ ہوگا اور اسے رقم حاصل ہوگی؛
n کرایہ دار کسان کو اسکیم میں نہیں لایا گیا ہے؛
n زرعی مزدور کو اسکیم میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
n غیرکاشتکار دیہی غریب افراد جیسے چھوٹے دوکاندار، پھیری والا، بڑھئی، سنار، نائی برہمن وغیرہ کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے؛
n شہری غریبوں کو بالکلیہ خارج رکھا گیا ہے۔
اراضی کے مالک کسان بشمول کاشتکاری ترک کرنے والے زمیندار کی فیملی کو 17 روپئے فی یوم کی ’زبردست رقم‘ حاصل ہوگی۔ میں اس اسکیم کا مضحکہ نہیں اُڑا رہا ہوں؛ بلکہ حکومت ہی کسان کی توہین کررہی ہے جبکہ ڈیزل، برقی، کھاد، بیج وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کرکے، کاشتکاری کے سامان جیسے ٹریکٹرز، کھیت جوتنے کی مشین اور دراسوں پر جی ایس ٹی عائد کرکے اور اُن کی فصل کیلئے منصفانہ قیمتیں دینے سے انکار کرتے ہوئے انھیں پہلے ہی زک پہنچائی جاچکی ہے۔ کیا فی خاندان 17 روپئے فی یوم کسان کے گھرانہ کی مشکل یا غربت دور کریں گے؟ ظاہر ہے، نہیں۔ کئی ریاستوں میں ماہانہ 500 روپئے (یا سالانہ 6,000 روپئے) کی رقم معمرین یا معذورین یا بیواؤں کیلئے پنشن سے کہیں کم ہوگی۔ اگر 17 روپئے فی یوم یا پہلی قسط کے طور پر 2,000 روپئے غربت دور کرنے کا معقول اقدام نہیں تو پھر یہ کیا ہے؟ واضح اور سادہ زبان میں یہ نقدی برائے ووٹ ہیں۔ حکومت انتخابات کے موقع پر ووٹروں کو رقم دے گی تاکہ اُن کے ووٹ حاصل کرسکے … اس فن میں بعض سیاسی پارٹیاں غلط ذرائع سے جمع شدہ رقم کو استعمال کرنے میں ماہر ہیں۔ پی ایم۔ کسان کے تحت حکومتی رقم پہلی بار ووٹروں کو رشوت دینے کیلئے استعمال کی جائے گی۔
کیا ریاستی حکومتوں نے زمین کی ملکیت کے ریکارڈز کو تازہ اور مصدقہ بنایا ہے؟ ایک طرف، مرکزی حکومت نے 4 فبروری کو ریاستوں کو مکتوبات تحریر کرتے ہوئے اُن سے کہا کہ اپنے لینڈ اونرشپ ریکارڈز کو تازہ ترین کرلیں؛ دوسری طرف، اُسی روز متعلقہ معتمد نے اعلان کیا کہ پہلی قسط فوری تقسیم کی جائے گی اور حکومت دوسری قسط بھی انتخابات سے قبل تقسیم کرسکتی ہے۔ (حالانکہ) سکریٹری سے حکومت کے رازوں کو راز ہی رکھنے کی توقع رہتی ہے!
شیخی
دیگر بڑا وعدہ پنشن پلان ہے … درحقیقت یہ ایک اور پنشن پلان ہے جبکہ پہلا پلان ’اٹل پنشن یوجنا‘ ناکام ہوگیا۔ حصہ داری کا قدیم پلان مئی 2015ء میں شروع کیا گیا تھا اور ڈسمبر 2018ء تک صرف 1.33 کروڑ افراد کو اس سے جوڑا جاسکا۔ چند لوگ ہی ہیں جو صراحت کردہ حصہ داری پیچیدہ سانچہ کو سمجھ سکے جس نے مصرحہ فائدہ کے ساتھ ساتھ سبسکرائبر کے دیئے کارپس کو بھی واپس کرنے کا وعدہ کیا۔ نیا پلان ظاہر طور پر زیادہ سادہ ہے لیکن 55 روپئے تا 100 روپئے ماہانہ کا طویل عرصہ اور ممکنہ طور پر بلاوقفہ مدت (31 تا 42 سال) تک حصہ ادا کرنا اور 60 سال کی عمر کو پہنچنے پر ماہانہ 3,000 روپئے کے پنشن کی یقین دہانی سے معاشی سوجھ بوجھ کی عکاسی نہیں ہوتی ہے۔ اگر پنشن پلان کا حصہ بننے کیلئے زیادہ سے زیادہ عمر 50 سال ہو (جیسا کہ اُن کی بجٹ تقریر سے اخذ کیا جاسکتا ہے)، عبوری وزیر فینانس کو پتہ ہے کہ 10 سال تک کوئی ادائیگی ہونے والی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس جانکاری کے ساتھ اور منصوبے کے مطابق 10 کروڑ مزدوروں اور ورکرز کو شامل کرنے کی امید نہ ہونے کے ساتھ عبوری وزیرفینانس نے صرف 500 کروڑ روپئے کی بچت کی ہے! (ویسے بجٹ تقریر کے پیراگراف 37 سے ہٹ کر بجٹ دستاویزات میں رقم مختص کرنے کا کہاں تذکرہ ہوا ہے؟)
شیخی بگھارنے کی دیگر تجاویز بھی ہیں جیسے کھلے عام رفع حاجت سے پاک اضلاع اور دیہات، ہر گھرانہ کو برقی کی سربراہی، فری ایل پی جی کنکشن، اور مُدرا قرض لینے والوں کا نوکری پیدا کرنے والے بن جانا؛ اس حقیقت سے قطع نظر کہ ان دعوؤں میں سے ہر ایک کو غیردرست قرار دیتے ہوئے ماہرین تعلیم، این جی اوز اور صحافیوں کی رپورٹس ان کی قلعی کھول چکے ہیں۔ مجموعی طور پر عبوری بجٹ نے آشکار کیا کہ لوک سبھا انتخابات کیلئے بی جے پی کی حکمت عملی ’شیخی اور ووٹروں کو رشوت‘ ہے۔