عبوری حکومت کے مسئلہ پر طالبان سے مذاکرات کیلئے تیار : عبداللہ

   

کابل ۔ فغانستان کی اعلیٰ کونسل برائے قومی مفاہمت کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ بین الافغان مذاکرات شروع ہونے پر وہ طالبان کے ساتھ ملک میں عبوری حکومت کے قیام سے متعلق بات چیت کے لیے بھی تیار ہیں۔عبداللہ عبداللہ نے یہ گفتگو چہارشنبہ کو تنازعات کے حل اور ان کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے ‘امریکی انسٹی ٹیوٹ ایف پیس’ میں ایک مباحثے کے دوران کی۔مباحثے کے دوران افغان رہنما سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ افغان حکومت اور طالبان کی مشترکہ عبوری حکومت کے قیام سے متعلق طالبان کی تجویز تسلیم کر سکتے ہیں؟اس کے جواب میں عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ وہ اس پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ فریقین کو کئی دہائیوں سے جاری دشمنی ختم کرنے کے لیے سمجھوتا کرنے پر تیار رہنا چاہیے۔ اس لیے مذاکرات کی میز پرآئیں اور وہاں بات کریں۔عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے خیالات میں لچک پیدا کرنی ہو گی۔ اب ہمیں پائیدار امن کے راستے پر چلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔عبداللہ عبداللہ کا یہ بیان افغان صدر اشرف غنی کے اس حالیہ بیان کے بالکل برعکس ہے جس میں انہوں نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے پیشِ نظر عبوری حکومت کے قیام کے لیے اپنے عہدے سے دست برداری کے امکان کو مسترد کیا تھا۔رواں ماہ کے ایغاز میں صدر اشرف غنی نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عبوری حکومت کے قیام سے متعلق کوئی بھی بحث قبل از وقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ افغان عوام کی مرضی سے کام کر رہے ہیں، طالبان کی مرضی سے نہیں۔خیال رہے کہ عبداللہ عبداللہ افغان صدر اشرف غنی کے حریف رہے ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں دونوں رہنماویں نے کامیابی کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم گزشتہ ماہ دونوں رہنماویں کے درمیان شراکت اقتدار کا ایک معاہدہ طے پا گیا تھا۔ معاہدے کے بعد عبداللہ عبداللہ کو طالبان کے ساتھ امن عمل کی قیادت سونپی گئی ہے۔عبداللہ عبداللہ کے حالیہ بیان پر افغان صدر یا ان کے دفتر سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔طالبان صدر اشرف غنی کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ افغان حکومت کو امریکہ کے افغانستان پر “غیر قانونی قبضے” کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔