عثمانیہ یونیورسٹی میں متنازعہ کورس متعارف کرنے سے طلبہ میں ناراضگی

   

Ferty9 Clinic

گائے کے پیشاب اور گوبر کو مفید ثابت کرنے کی کوشش، زعفرانی تنظیموں کے زیر اثر اقدام کا شبہ

حیدرآباد۔/18 جولائی، ( سیاست نیوز) تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے کی کوششیں ملک میں نئی نہیں ہیں۔ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی اور اس کی زیر اقتدار ریاستوں میں تاریخ کو ازسر نو مرتب کرنے یا پھر قدیم علاج کے طریقوں کو متعارف کرنے کے نام پر طلبہ کو ایسے مضامین سے متعارف کیا جارہا ہے جن کا راست تعلق ہندوتوا ذہنیت سے ہے۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں گائے کے پیشاب اور گوبر کے استعمال کو صحت کیلئے مفید حتیٰ کہ کورونا کے علاج کیلئے بھی فائدہ مند ظاہر کیا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی میں طلبہ کو اسی طرح کے مضامین پڑھنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے۔ کورونا اور کینسر کے علاوہ دیگر امراض کے علاج کیلئے گائے کے پیشاب ، گوبر اور دیگر اشیاء کے استعمال کی حمایت کرنے والوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ کو ہندوستانی روایتی علاج سے متعلق معلومات کے نام پر متنازعہ نصاب متعارف کرنے کی کوشش کی ہے۔ طلبہ کو جبراً متنازعہ اسباق پڑھنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے۔ ہندوتوا پروپگنڈہ کے مطابق مختلف امراض کیلئے گائے کا پیشاب فائدہ مند ہے حالانکہ سائنسی طور پر اس دعویٰ کی کوئی توثیق نہیں ہوئی۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے شکایت کی ہے کہ طلبہ کو ہندوستانی روایتی معلومات کے نصاب کو پڑھنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے بصورت دیگر انہیں امتحان میں کامیاب نہیں کیا جائے گا۔ نصاب کی تائید کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں میڈیکل شعبہ نے گائے کی اشیاء کو جلد کی بیماریوں، پیشاب کے مسائل، گھٹنوں کے درد، السر، کینسر اور ٹی بی میں مفید تسلیم کیا ہے۔ گائے کے مختلف پراڈکٹس میں پیشاب، گوبر، دودھ، دہی اور گھی کو امراض کیلئے مفید بتایا جارہا ہے۔ امریکہ اور آفریقہ میں ان اشیاء کے استعمال کا دعویٰ ہے۔ کئی طلبہ نے اپنی شناخت ظاہر کئے بغیر متنازعہ نصاب متعارف کرنے پر اعتراض جتایا ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کا اقدام عثمانیہ یونیورسٹی کے روایتی موقف کے خلاف ہے۔ یونیورسٹی میں طلبہ کیلئے یوگا کی حوصلہ افزائی کی اطلاعات ہیں جس کے بارے میں یوگا انسٹرکٹر اے ایس چاری کا کہنا ہے کہ انجینئرنگ طلبہ کیلئے یہ متعارف کیا گیا تاکہ ان کی تعلیم پر توجہ میں اضافہ ہو۔ انہوں نے گائے کی سائنس سے متعلق مضمون متعارف کئے جانے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی اور ٹیچر یہ پڑھا رہے ہوں۔