اس کے 100 ویں سال میں اس گرما میں سوکھ جائے گا
حیدرآباد ۔ یکم ۔ مارچ : ( سیاست نیوز) : عثمان ساگر درحقیقت سوکھ گیا ہے ۔ اس سال اس جھیل کی تعمیر کے 100 سال ہورہے ہیں جب کہ اس کی پانی کی سطح ڈیڈ اسٹوریج نشانہ پر پہنچ گئی ہے ۔ یہ بڑا ذخیرہ آب جو کبھی حیدرآباد اور سکندرآباد کو پانی کی سربراہی کا اہم ذریعہ تھا وہ دہوں میں پہلی مرتبہ اس موسم گرما میں سوکھ جائے گا ۔ ماحولیات کے ماہرین نے یہ بات کہی ہے ۔ موسیٰ ندی کی طغیانی کو روکنے کے لیے 1920 میں تعمیر کیے گئے عثمان ساگر سے 100 سال تک حیدرآباد میں دس لاکھ لوگوں کو پینے کا پانی سربراہ کیا جاتا رہا ہے ۔ لیکن مستقبل اگر گذشتہ 20 سال میں اس جھیل میں آنے والے پانی کے بہاؤ کو دیکھا جائے تو مایوس کن نظر آتا ہے ۔ اس جھیل میں 22 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی پانی کی سطح میں 2000 سے کمی ہورہی ہے ۔ نیو ملینیم کے پہلے دہے (2000-2010) میں یہ جھیل صرف دو مرتبہ اس کے فل ریزر وائر لیول (FRL) پر پہنچی اور 2010 سے عثمان ساگر ایک مرتبہ بھی ایف آر ایل پر نہیں پہنچا ۔ حیدرآباد میٹرو پولیٹن واٹر سپلائی اینڈ سیوریج بورڈ کے ڈیٹا کے مطابق 1790 فیٹ کے ایف آر ایل کے مقابل اس ذخیرہ آب میں پانی کی سطح گذشتہ دس سال میں 1756 فیٹ اور 1783 فیٹ کے درمیان تھی کیوں کہ اس کے 285 مربع میل پر پھیلے ہوئے آبگیر علاقے سے اس جھیل میں پانی کا بہاؤ بہت کم ہوا ۔۔