پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
ٹاملناڈو کا قدیم ضلع رامنتاپورم (جو اب تین حصوں میں تقسیم ہے رامنتا پورم، شیوا گنگائی اور ویر ودھونگر) ایک ایسا ضلع ہے جس میں بے شمار آبی ذخائر قدرتی جھیلیں، انسانوں کے بنائے ہوئے واٹر ٹینکس، آبپاشی ٹینکس (ٹامل میں انہیں کن سوئس کہتے ہیں) پینے کے پانی کے تالاب (اوورانی)، مویشوں اور بھیڑ بکروں کے ٹینکس، دھونے کے ٹینکس (کولم) اور باولیاں پائی جاتی ہیں، قدیم رامنتا پورم ایک خشک اراضی کا حامل ضلع تھا جہاں بارش بہت کم ہوا کرتی تھی، نتیجہ میں زیادہ تر زرعی زمین سیراب نہیں ہوتی اور کسانوں کا سارا دارومدار مانسون پر ہوا کرتا تھا۔ ایسے میں عوام اور ان کے حکمرانوں کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ کھدائی کریں، کھدائی کریں بس کھدائی کرتے رہیں تاکہ آبی ذخائر بنائیں۔ بہرحال قدیم رامنتاپورم کے لوگوں اور حکمرانوں نے سال بھر یہ کام کیا جہاں تک آبی ذحائر کا سوال ہے یہ ذخائر انسانوں اور جانوروں کی بقاء کے لئے از حد ضروری ہیں۔ مذکورہ ضلع میں عوام کی محنت رنگ لائی اور کئی آبی ذخائر وجود میں آئے لیکن جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوا اور انسانی بستیاں ناگزیر ہوگئیں تب اس کا سب سے زیادہ نقصان آبی ذخائر کو پہنچا۔ پھر وقت نے انسانوں کی آزمائش شروع کردی، لوگوں نے آہستہ آہستہ ان اراضیات پر قبضے شروع کردیئے جو آبی ذخائر کے بالکل قریب بلکہ ان سے منسلک تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تالابوں، کنٹوں، جھیلوں وغیرہ کے کناروں پر چمند جھونپڑیاں نمودار ہوئیں۔ مزید جو تھپڑباں آگلے مہینوں میں ڈالی جائیں گی جیسے جیسے قبضے بڑھتے گئے پانی کا ذخیرہ کم ہونا شروع ہوا اور ایک دن ایسا آیا کہ پانی کا ذخیرہ غائب ہو گیا، یعنی ختم ہوگیا ایسے ہی جیسے سمندر آگے بڑھا تو ساحلی پٹی کہیں گم ہوگئی اور اس کیفیت کو زمین کا کٹاو بھی کہا جاتا ہے۔
اگر دیکھیں تو آبی ذحائر کی اس تباہی کے لئے دو الفاظ کا استعمال کیا جاسکتا ہے، ناجائز قبضے (تجاوز) اور زمین کا کٹاؤ اس کا اطلاق آزادی پر بھی ہوتا ہے۔ ایک آزاد ملک میں اس کی آزادی درمیانی شب نہیں چھینی جاتی بلکہ اسے مٹایا جائے گا۔ بڑی خاموشی کے ساتھ چپکے چپکے، بڑی مکاری و عیاری کے ساتھ جب تک کہ آپ کو ایک دن یہ معلوم نہ ہو جائے کہ آپ اتنے آزاد نہیں ہیں جتنے کچھ ماہ قبل آزاد تھے اور جب آپ کو اپنی آزادی سے محرومی کا احساس ہوتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی کیونکہ آپ نے جو کھویا اسے دوبارہ پانے کے لئے بہت دیر ہو جائے گی اور ہاں اس وہم میں بھی نہ رہیں کہ آپ اپنی آزادی کھو نہیں سکتے صرف ان اقوام کو شمار کریں جنہوں نے اس وقت آزادی حاصل کی تھی جب ہندوستان نے 1947 اور اس کے بعد کی دہائی میں حاصل کی تھی اور اب ان ملکوں کا شمار کریں جنہوں نے نوآبادیات کے ہاتھوں اپنی آزادی نہیں کھوئی ہے بلکہ مقامی آمر ظالم وجابر عناصر کے ہاتھوں اپنی آزادی کھو دی ہے اس قسم کے کئی ملکوں میں ہنوز الیکشن کمیشن کام کررہا ہے اور انتخابات کا انعقاد بھی عمل میں آتا ہے۔ ان ملکوں میں عدلیہ اور ججس بھی ہیں ۔ پارلیمنٹ اور ارکان پارلیمنٹ ایک کابینہ اور وزراء بھی ہیں۔ اخبارات اور صحافی بھی ہیں لیکن جب آپ ان میں سے کسی ایک ملک کا دورہ کریں گے یا اس میں قیام کریں گے تب آپ جان جائیں گے یہ ملک تو آزاد نہیں ہے۔ اس قسم کے ملک بظاہر آزاد ملک دکھائی دے رہے ہیں، لیکن وہ آزاد نہیں ہیں وہ تو ایسی ریاستیں ہیں جہاں آمریت کی بالادستی ہے اور آمر حکومتیں عوام پر مسلط ہیں۔ واضح رہے کہ سویڈن کے V-Dem Institute نے ان ملکوں کی درجہ بندی ایک لبرل ڈیموکریسی، الیکٹورل ڈیموکریسی، الیکٹورل آٹو کریسی اور کلوزڈ آٹو کریسی کے طور پر کی ہے۔ سال 2021 میں سویندن کے مذکورہ ادارہ نے ہندوستان کو الیکٹورل آٹو کریسی (انتخابی آمریت) کے درجہ میں رکھا ہے۔ ہندوستان جیسے عظیم ملک کا اس طرح کی درجہ بندی میں شامل کیا جانا انتہائی شرمناک اور اس کے ماتھے پر ایک دھبہ ہے۔ اب ہم بات کرتے ہیں ان ترامیم کی دستور کی دفعات کی دستور کی دفعات 14 اور 19 (1) (a) اور (g) کسی بھی فرد کی آزادی کے ساتھ ساتھ صحافت نامی ادارہ کی آزادی کا تحفظ کرتی ہیں بعض آئین کی یہ دفعات ہندوستان شہری اور صحافتی آزادی کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ 6 اپریل 2023 کے دن کو آپ اور ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے کیونکہ اس دن آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے اس کی آزادی پر قدغن لگانے کے عمل کو مشکوک قانون کی منظوری حاصل ہوئی۔
خبروں کے بارے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ آیا یہ حقیقی ہے یا فرضی ہے کیونکہ فرضی خبروں کی بھی آج کوئی کمی نہیں ہے۔ چنانچہ ترمیم شدہ اصول مرکزی حکومت کے کسی بھی کاروبار یا امور پر لاگو ہوتا ہے مرکزی حکومت کا ایک فیاکٹ چیک یونٹ ہوگا یہ ایک سرکاری سنسر ہوگا اور اس سنسر کو خبروں کے فرضی یا حقیقی کے طور پر شناخت کا اختیار حاصل ہے اور یہ فیصلہ خالصتاً معروضی ہوگا جیسے ہی ایک نیوز کی فرضی یا جھوٹی نیوز کے طور پر نشاندہی ہوگی تب اخبارات ٹی وی چیانلوں اور سوشل میڈیا آؤٹ لیٹس اپنے کمپیوٹر وسائل کے استعمال کنندہ کو اس سے دور رکھنے کی خاطر ان فرضی خبروں کو ہٹا دیں گے۔ میں اس کالم کو ترمیم شدہ قاعدہ میں پانی جانے والی قانونی کمزوریوں پر روشنی ڈال کر قارئین پر بوجھ نہیں بڑھاؤں گا ہاں ! یہ کہنا کافی ہے کہ حکومت، پراسیکیوٹر جیوری اور جج ہے جو اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کیا فرضی ؍ جھوٹا ہے اور کیا نہیں۔
ترمیم شدہ قاعدہ کی ایک تاریخ ہے 2021 میں بتائے گئے انفارمیشن ٹکنالوجی کے قواعد نے ثالثوں پر گراں بہا ذمہ داریاں عائد کی ہیں اور ان قوانین یا قواعد کو مختلف عدالتوںمیں چیلنج بھی کیا گیا ہے۔ 28 اکتوبر 2022 کو حکومت نے انفارمیشن ٹکنالوجی (انٹرمیڈی ایٹری گائیڈ لائنس اینڈ ڈیجیٹل میڈیا (تھیکس کوڈ) قواعد 2022 کے بارے میں آگاہ کیا اور قاعدہ (v) (1) 3 b) میں اہم ترمیم کی اب 6 اپریل 2023 کے نوٹفکیشن نے رول (v) (b) (1) 3 میں مزید ترمیم کی ہے۔ اس کو میں آزادی کا رینگتا ہوا کٹاو کہتا ہوں۔
ائیے اب عدالتوں کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ ترمیم شدہ قواعد دستور اور قانون کے تحت قانونی ہیں یا نہیں؟ آپ کو غیر قانونی اور آزادی سے متعلق پہلووں پر نظر رکھنی چاہئے۔
٭ آیا ایک آزاد اور جمہوری ملک میں خبروں کو سنسر کیا جانا چاہئے۔
٭ آیا آپ خبروں کے سنسر کئے جانے کو قبول کرسکیں گے۔
٭ آیا خبروں کو سنسر کئے جانے کا عمل حکومت کے مقرر کردہ سنسر کے ذریعہ ہونا چاہئے۔
٭ آیا سنسر کو خبروں کی معروضیت کا فیصلہ کرنا چاہئے۔
٭ کیا حکومت کا اس طرح کا قدم آزادی اظہار خیال پر منفی اثرات مرتب نہیں کرے گا۔ بہرحال شہریوں اوور صحافت کا ایک بیش بہا حق چھینا جارہا ہے خواب غفلت سے بیدار ہو جائیے اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ ورنہ حکومت پر تعمیری تنقید کے حق سے بھی محروم ہو جاو گے۔