جسٹس (ریٹائرڈ) ایس مرلیدھر
سال 2014 ء کے بعد سے عدالتوں کے جو فیصلے آئے ہیں اس پر نہ صرف ماہرین قانون بلکہ عام لوگوں نے بھی اُنگلیاں اُٹھائیں۔ فیصلہ دینے والوں کی نیت ارادوں و مقاصد پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ۔ خاص طورپر تاریخی بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں سپریم کورٹ فیصلہ کے بعد تو عدلیہ کے بارے میں ملک و بیرون ملک سماجی جہدکار اور قانونی ماہرین نے ایسے خیالات ظاہر کئے جس سے اس بات کے واضح اشارے ملتے ہیں کہ وہ لوگ عدالتوں کے فیصلوں سے مطمئن نہیں ۔ ایسے ہی شخصیتوں میں سینئر ایڈوکیٹ اور دہلی ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج ایس مرلیدھر کا پرزور انداز میں یہ کہنا ہے کہ عدالتیں شہادت بابری مسجد کے بعد دستوری اقدار کی برقراری میں بری طرح ناکام ہوگئیں۔
انھوں نے 6 ستمبر کو دہلی میں اے جی نورانی یادگار لکچر دیا جس میں عدالتوں کی کارکردگی اور خاص طورپر فرقہ وارانہ نوعیت کے مقدمات میں صادر کردہ فیصلوں پر تشویش ظاہر کی ۔ انھوں نے فرقہ وارانہ نوعیت کے مقدمات میں عدلیہ کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ انھوں نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ شہادت بابری مسجد کے بعد ہمارے ملک کی عدالتیں دستوری اقدار برقرار رکھنے میں پوری طرح ناکام رہیں۔ اس بارے میں دی انڈین اکسپریس اور دی وائر انگریزی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ۔
جسٹس ریٹائرڈ مرلیدھر نے اپنے لیکچر میں سپریم کورٹ کے طرزعمل کو ناقابل معافی ادارہ جاتی بھول کی ایک بدترین مثال قرار دیا ۔ انھوں نے عدالت عظمیٰ کی اس خاموشی اور بے حسی کا حوالہ بھی دیا جو اُس نے اُترپردیش کے سابق چیف منسٹر کلیان سنگھ کے خلاف توہین عدالت کی ازخود نوٹس پر اختیار کی تھی۔ کلیان سنگھ کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ 6 ڈسمبر 1992 ء میں شہادت بابری مسجد کے بعد دائر کیا گیاتھا اور تعجب و حیرت بے حسی و بے بسی کی بات یہ ہے کہ اس پر 22 برسوں میں بھی سماعت نہیں کی گئی اور جب یہ مقدمہ جسٹس سنجے کول کے اجلاس کے سامنے آیا تب یہ کہا گیا آخر کیوں مردہ گھوڑے کو کوڑے مارے جائیں باالفاظ گڑے مردوں کو اب کیوں نکالا جائے ۔ ان کے خیال میں یہ ایک ادارہ جاتی بھول تھی جو ناقابل معافی ہے ۔ ایک ایسے عمل کو جسے خود سپریم کورٹ نے سنگین جرم قرار دیا تھا ۔ اسی پر طویل عرصہ تک خاموشی اختیار کی۔ جسٹس ( ریٹائرڈ ) مرلیدھر نے اے جی نورانی یادگار لیکچر میں بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ کے فیصلہ 2019 ء کا بھی حوالہ دیا ۔ اس بارے میں اُن کا کہنا تھا عدالت نے مقدمات کے دائرہ کار سے آگے بڑھ کر فیصلہ صادر کیا ۔ کسی نے بھی مندر کی تعمیر کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ جو ہدایات جاری کی گئیں وہ دفعہ 142 کے تحت جاری کی گئیں۔ مرکزی حکومت یا کسی ہندو گروپ نے یہ نہیں طلب کیا تھا نہ ہی اس کی کوئی قانونی بنیاد تھی ۔
جسٹس مرلیدھر کے مطابق عدالت کا فیصلہ یا رولنگ مکمل طورپر مقدمات کے دائرہ کار سے باہر تھا اور اس فیصلہ کے اثرات آج بھی عدالتوں پر مرتب ہورہے ہیں ۔ ہمارے پاسعبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قوانین موجود ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مذہبی مقامات ( عبادت گاہوں) سے متعلق مقدمات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس ضمن میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ فی الوقت عبادت گاہوں سے متعلق کم از کم 17 مقدمات عدالتوں میں زیردوراں ہیں۔
جسٹس مرلیدھر نے ہندوستان میں فرقہ پرستی کے بڑھتے واقعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹیلی ویژن میڈیا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ چیانلس ملک کے مفاد میں عوامی بہبود و ترقی کیلئے مباحث کروانے کی بجائے ہندو مسلم کے سوال پر مباحث کروارہے ہیں ۔ اس طرح کا میڈیا ملک کی خدمت نہیں بکہ اس کی بدخدمتی کررہا ہے ۔ وہ ہندوستان کی تکثیریت والی تہذیب و روایات کو نظرانداز کررہا ہے ۔ اُن کے خیال میں جو کچھ میڈیا ( ایودھیا فیصلہ ) سے متعلق کہتا ہے اور بالآخر فیصلہ دیتے ہیں وہ کسی بھی طرح منطقی نتیجہ معلوم نہیں ہوتا ۔سابق چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر ا چوڑ کا بالراست حوالہ دیتے ہوئے ( چندراچوڑ کو عام طورپر بابری مسجد۔ رام جنم بھومی فیصلہ کا مصنف کہا جاتا ہے ) جسٹس مرلیدھر نے کہا کہ وہ ایک مصنف کا فیصلہ تھا اور مصنف نے خود اعتراف کیا کہ فیصلہ صادر کرنے سے پہلے اُس نے دیوتا سے مشورہ کیا تھا۔ جسٹس مرلیدھر نے ہندوستان کو ایک ایسا ملک قرار دیا جس میں کئی مذاہب کے ماننے والے مختلف رنگ و نسل ، ذات پات کے لوگ رہتے ہیں ۔ کثرت میں وحدت کا تصور ہندوستان نے ساری دنیا کو دیا ہے ۔ انھوں نے عدلیہ کے احتساب پر بھی زور دیا ، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہم یہ نہیں پوچھ سکتے کون ہمارے ججس ہیں اور اُن کے مذہبی عقائد کیا ہیں ۔ مستقبل میں ملک میں سیکولرازم کو محفوظ رکھنے کیلئے ہمیں ماضی میں جانا ہوگا اور اسکولوں سے اس کی شروعات کرنی پڑے گی ۔