رویش کمار
ہندوستانکی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا طویل ترین، نہایت پُرتشدد، کافی متنازع اور سیاسی طور پر حساس اراضی تنازع ہے۔ یہ تنازع میدانِ سیاست میں لڑا گیا۔ اس ضمن میں دعوے اور جوابی دعوے کرنے والوں کے درمیان جو تشدد برپا ہوا، اس کے بارے میں عوام پوری طرح نہیں جانتے کہ وہ کیونکر پیش آیا۔ ہندو بھی ہلاک ہوئے، مسلمان بھی مارے گئے۔ آخرکار تمام تر لڑائی اور جھگڑا ایسے نکتہ پر پہنچ گیا کہ جب کچھ عدالت فیصلہ کردے، اُس پر تمام فریق متفق ہوجائیں گے۔
عدالتوں کے فیصلے کو تیزوتند اور لرزا دینے والے مراحل سے گزرنے کے بعد منطقی انجام پر پہنچتے بھی دیکھا گیا۔ بابری مسجد 6 ڈسمبر 1992ء کو گرائی گئی تھی۔ لبرہان کمیشن کی انکوائری 17 برس تک چلتی رہی کہ اس کیس میں ملوث عناصر کا پتہ چلایا جاسکے۔ یو پی کی سماعتی عدالت نے اپنا کام جاری رکھا، لیکن مرتکبین کو سزا نہیں ہوئی۔ یہ سوال موجودہ مباحث سے غائب ہوچکا ہے۔ ’مریادا پروشوتم رام‘ کے نام پر ان حدود کے بارے میں کوئی ازالہ ہے، نہ عدالت کا کوئی فیصلہ۔الہ آباد ہائی کورٹ کے اُس فیصلے کو یاد کیجئے جو متنازع اراضی کی ملکیت کے بارے میں دیا گیا۔ اس فیصلے سے غیرمطمئن سنی وقف بورڈ سپریم کورٹ سے رجوع ہوا اور شری رام جنم بھومی ٹرسٹ اور نرموہی اَرینا بھی اپنے دعوؤں کے ساتھ سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ ایسا نہیں کہ صرف سنی وقف بورڈ اور رام جنم بھومی ٹرسٹ کا آمنا سامنا ہوتا رہا بلکہ رام جنم بھومی ٹرسٹ اور نرموہی اکھاڑہ بھی آپس میں مختلف دعوے کرتے رہے۔ 2011ء میں سپریم کورٹ نے حکم التواء جاری کردیا تھا۔ یہ کیس سپریم کورٹ میں چھ سال لٹکا رہا۔ اِس سال 6 اگست سے مسلسل 40 روز سماعت ہوئی۔ پانچ ججوں کی بنچ نے فریقوں کے دلائل سنے۔ سپریم کورٹ سے ابتداء میں رجوع ہوتے وقت تین فریق تھے، لیکن بعد میں فریقوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ 8,000 صفحات پر مشتمل ہے۔ 60 سالہ تعطل کے بعد یہ معاملہ الہ آباد ہائی کورٹ میں 30 ستمبر 2010ء کو نتیجہ پر پہنچا تھا۔ اُس فیصلے کے مطابق 2.7 ایکڑ متنازع اراضی کو تین فریقوں میں مساوی طور پر تقسیم کردیا جائے۔ ایک حصہ ہندو فریق، ایک مسلم فریق اور ایک نرموہی اکھاڑہ کو سونپا جائے۔ چونکہ رام للا عارضی مندر میں ہے، اس لئے اسے ہندو فریق کو دیا گیا۔ سیتا رسوئی اور رام چبوترہ والا حصہ نرموہی اکھاڑہ کو دیا گیا۔ تیسرا حصہ سنی وقف بورڈ کو دیا گیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ میں تین ججوں کی بنچ نے سماعت کی۔ جسٹس ایس یو خان، جسٹس دھرم ویر شرما، جسٹس سدھیر اگروال نے 90 ایام کار میں سماعت مکمل کی، جس کی شروعات 11 جنوری 2010 کو ہوئی تھی، اور فیصلہ کا اعلان 30 ستمبر 2010ء کو کیا گیا۔ اس مسئلہ کو میڈیا میں عقیدہ کے معاملہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، لیکن عدالت کی نظر میں یہ ایک اراضی تنازع ہے۔ اراضی کی ملکیت کس کے پاس ہے، اسے انگریزی میں ’ٹائٹل سوٹ‘ کہا جاتا ہے۔
نیشنل براڈکاسٹرز اسوسی ایشن نے اس کیس کے کوریج کے تعلق سے ایک اڈوائزری جاری کی ہے۔ ہم آپ سے اس لئے کہہ رہے ہیں کہ خود دیکھ لیں کہ اس مشورہ ؍ نصیحت کی کس حد تک تعمیل کی جارہی ہے۔ یہ کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں سماعت یا فیصلے کے تعلق سے قیاس آرائی نہیں ہونی چاہئے۔ متوقع فیصلے کے تعلق سے بھی کوئی قیاس آرائی نہ ہونا چاہئے۔ رپورٹر اور ایڈیٹر کے رول کے بغیر کوئی نیوز نشر نہ کی جائے۔ بابری مسجد انہدام کا کوئی پرانا فوٹیج نہیں دکھانا چاہئے۔ فیصلے کی تائید میں جشن منانے کا کوئی فوٹیج نہیں دکھانا چاہئے۔ کسی کمیونٹی کے تئیں کوئی بھی جانبداری نہیں ہونا چاہئے۔ جو کوئی فرد جارحانہ انداز میں بات کرے، اُسے مباحث میں جگہ نہیں دینا چاہئے۔ اشتعال انگیز مباحثوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔
ان باتوں پر 2010ء میں سب نے عمل کیا، لیکن کیا اب ان کی تعمیل ہوگی، آپ دیکھئے گا۔ یہ ہدایت 16 اکٹوبر کو وصول ہوئی، مگر اس کیس کا کوریج زیادہ تر بڑے چیانلوں نے کس طرح کیا ہے، آپ کو خود اس کا جائزہ لینا چاہئے۔ کس قسم کے رنگ استعمال کئے گئے، کس طرح اشتعال انگیز گرافکس بنائے گئے، کیسی زبان استعمال کی گئی، مذہبوں کے نام کس طرح لکھے گئے، ان باتوں کا آپ کو پتہ چل جائے گا۔ کاش! ایسی ہدایت پہلے ہی جاری کردی جاتی۔ بہتر ہے کہ آپ ہائیکورٹ کا فیصلہ پڑھیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی پڑھیں۔ یہ ذہن نشین رکھیں کہ فیصلے کے مخصوص نکات کی پوری طرح رپورٹنگ نہیں ہوسکتی ہے۔ ویراگ گپتا نے اس کیس کی تاریخ کے بارے میں ایک کتابچہ تحریر کیا ہے۔اس میں بعض دلچسپ باتیں ہیں۔ زیادہ تر دستاویزات کو ڈیجیٹل شکل میں منتقل کرلینے کے باوجود اسے سپریم کورٹ کو پہنچے میں تین سال درکار ہوئے۔ یہ دستاویزات سنسکرت، اُردو، ہندی، فارسی میں ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے سماعت ہندی میں کی تھی لیکن سپریم کورٹ میں اسے انگریزی میں کیا گیا۔ کئی دستاویزات کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا اور اس کیلئے مزید دو سال لگے۔ 8,000 صفحات کے ہائی کورٹ فیصلے کو ’جوائنٹ ٹائٹل ہولڈر‘ قرار دیا گیا۔ دو حصے رام للا اور نرموہی اکھاڑہ میں تقسیم کئے گئے۔ لیکن دونوں ہی سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے۔ دونوں مختلف حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں۔ سنی وقف بورڈ بھی اپنے حصے کا دعویٰ کررہا ہے۔
اب ہم جو باتیں بتانے جارہے ہیں، ان کا تعلق کیس کی بحث سے ہٹ کر تاریخ سے ہے۔ فیضان مصطفیٰ نے ’یو ٹیوب‘ پر چار ویڈیوز پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس تنازع کے طویل سفر کی شروعات کس طرح ہوئی۔ آپ اس کیلئے یو ٹیوب کا مشاہدہ کرلیجئے۔ بہرحال یہ مسئلہ عدالت میں 133 سال سے ہے۔ اس تنازع کا قدیم ترین فریق نرموہی اکھاڑہ ہے جو 133 سال سے یہ کیس لڑرہا ہے۔ ہندو مہاسبھا 68 سال اور سنی وقف بورڈ 57 سال سے اپنے اپنے دعوے ثابت کرنے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ 60 سال بعد الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا، جس میں جسٹس خان نے کہا ہے کہ غیرمتوقع طور پر ہندو اور مسلمان دونوں ہی اس اراضی پر پوجا اور عبادت کرتے رہے ہیں۔ جسٹس سدھیر نے بھی کہا کہ عمارت کا داخلی صحن یعنی ’گربھاگریہا‘ (ہندو اور جین مندر میں مورتی رکھنے کا مقام مقدس) ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں سے تعلق رکھتا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا حکمنامہ سنانے سے قبل اشارۃً خلاصہ پیش کیا یعنی 12 نکات پیش کئے۔ یہ ثابت نہیں ہے کہ متنازع علاقہ کا ڈھانچہ بابر کا ہے یا مسجد کس نے تعمیر کرائی یا کس کے احکام پر اسے تعمیر کیا گیا۔ مسجد کی تعمیر کیلئے کوئی مندر نہیں گرائی گئی۔تاہم، ہندوؤں کا ماننا ہے کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر کی گئی، جو طویل مدت سے قائم تھی۔ مسجد کی تعمیر تک ہندوؤں کا یہی ماننا رہا کہ متنازع علاقہ کا بڑا حصہ شری رام کی جائے پیدائش سے تعلق رکھتا ہے۔ مسجد کی تعمیر کے بعد جلد ہی ہندوؤں نے رام جنم بھومی والے متنازع علاقہ کے حصہ کی شناخت شروع کردی۔ 1885ء سے قبل رام چبوترہ اور سیتا رسوئی قائم تھے اور وہاں ہندو پوجا کرتے تھے۔ یہ منفرد اور غیرمتوقع ہے کہ ہندوؤں کا مذہبی مقام مسجد کے احاطہ میں واقع ہے، جہاں نماز بھی ادا کی جاتی ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کے بعد کہ دونوں برادریاں متنازع علاقہ میں عبادت کرتی رہیں، لیکن یہ ثابت نہیں ہوا کہ وہ کسی مخصوص حصہ کی ملکیت بھی رکھتے ہیں۔ دونوں بس شراکت دار رہے۔ چونکہ فریقین اپنے دعوے کو ثابت نہیں کرسکے، لہٰذا دونوں کو پارٹنرس سمجھا گیا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب 23 ڈسمبر 1949ء کو ایک مورتی گنبد کے نیچے رکھ دی گئی۔ اسے ہی شری رام کی جائے پیدائش مانا گیا۔
جب 2010ء میں فیصلہ کا اعلان ہوا، ملک میں امن کا ماحول تھا، خاص کر اُس وقت یو پی میں مایاوتی نے نظم و نسق کو اچھی طرح سنبھالا، جس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ امید یہی ہے کہ اِس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ بس ذہن میں رکھیں کہ ’WhatsApp University‘ میں کیا چل رہا ہے۔ اس کے اشتعال انگیز مواد سے چوکنا رہئے۔ اگر آپ کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں تو میں میرے پسندیدہ چند نام بتاسکتا ہوں۔ آپ خود بھی تلاش کرکے مزید کتب کا مطالعہ کرسکتے ہو۔ ’ٹروتھ آف ایودھیا: رام جنم بھومی۔ بابری مسجد‘ شیتلا سنگھ نے تحریر کی، جسے فیض آباد سے کوشل پبلشنگ ہاؤس نے طبع کیا ہے۔ 550 روپئے کی یہ کتاب آپ کو ٹی وی اور اخبار سے کہیں زیادہ معلومات فراہم کرے گی۔ کرشنا جھا اور دھریندر جھا کی کتاب ’ایودھیا: دی ڈارک نائٹ، دی سیکرٹ ہسٹری آف راماس اپیئرنس اِن بابری مسجد‘ (ہرپرکالنس پبلکیشن، 400 روپئے) ای۔ کامرس کمپنی Flipkart پر مل جائے گی۔ والے سنگھ کی کتاب ’ایودھیا: سٹی آف فیتھ، سٹی آف ڈسکارڈ‘ (آلف بک کمپنی) 799 روپئے میں دستیاب ہے۔ یہ فلپکارٹ کے ساتھ امیزان پر بھی مل جائے گی۔ سابق وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ نے بھی ایک کتاب تحریر کی، ’ایودھیا 6 ڈسمبر 1992‘ کو پنگوئن نے شائع کیا۔ کشور کنال کی کتاب ’ایودھیا ری وزیٹیڈ‘ بھی پڑھئے۔ اگر کوئی اور بھی کتاب ہو تو ضرور پڑھئے۔ 15 روز میں آپ یہ کتابیں پڑھ سکتے ہیں، پھر آپ خودبخود اس مسئلہ پر چیانلوں کا مشاہدہ موقوف کردیں گے کیونکہ آپ جان جائیں گے کہ آیا ان مباحثوں میں کوئی مناسب و ٹھوس بات بتائی جارہی ہے؟ ہمارے رفیق کار آشیش بھارگوا سپریم کورٹ میں 40 روزہ سماعت کے دوران موجود رہے۔ ایک اور رفیق کار کمال خان طویل عرصے سے اس سارے تنازع کا مشاہدہ اور احاطہ کرتے آئے ہیں۔ وہ تمام فریقوں سے بات کرتے رہے ہیں۔ کمال کے مطابق سماعت کی تکمیل کے بعد اترپردیش میں سکیورٹی سسٹم سخت کیا جاچکا ہے۔ فیصلہ چاہے جو کچھ بھی ہو، حکومت کسی قسم کی کشیدگی نہ پھیلنے کے تعلق سے پوری طرح محتاط ہے۔٭ [email protected]
