عدالت میں نقاب ہٹانے سے خاتون وکیل کا انکار

,

   

جج نے سماعت سے انکار کردیا۔ قوانین میں سہولت نہ ہونے کا ادعا
جموں:جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے گزشتہ دنوں ایک ایسی مسلم خاتون وکیل کے کیس کی سماعت سے انکار کردیا، جس نے سماعت کے دوران اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانپا ہوا تھا۔ جب جج نے خاتون سے نقاب ہٹانے اور چہرہ دکھانے کو کہا تو وکیل نے چہرہ دکھانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد جج نے کیس کی سماعت سے انکار کر دیا اور ہائی کورٹ رجسٹرار جنرل سے رپورٹ طلب کی کہ کیا کسی خاتون وکیل کو چہرہ ڈھانپ کر کسی کیس کی پیروی کرنے کی اجازت ہے۔ عدالت نے اس خاتون وکیل کی بات سننے سے انکار کر دیا اور آئندہ تاریخ دے دی۔بار اینڈ بینچ کی رپورٹ کے مطابق، رجسٹرار کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد ہائی کورٹ کی جسٹس موکش کھجوریہ کاظمی نے اپنے حکم میں کہا کہ بار کونسل کے قواعد میں کہیں بھی اس طرح کے حق کا ذکر نہیں ہے، جس کے تحت کوئی خاتون چہرے پر نقاب لگا کر یا برقعہ پہن کر عدالت میں کیس کی پیروی کر سکے۔ عدالت نے کہا کہ بی سی آئی کے قواعد کے چیاپٹر IV (پارٹ VI) کی شق 49(1) (جی جی) میں خواتین وکلاء کیلئے منظور شدہ لباس کوڈ کی تفصیل دی گئی ہے۔ عدالت نے کہا کہ‘‘ان قواعد میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس عدالت کے سامنے پیش ہونے اس قسم کا لباس قابل قبول ہے۔ 27 نومبر کو ہائی کورٹ میں خاتون وکیل پیش ہوئی تھیں، جنہوں نے اپنا نام سید عینین قادری بتایا تھا اور گھریلو تشدد کے کیس میں درخواست گزار کی طرف سے پیش ہوئیں۔وہ وکیل کے لباس میں تھیں لیکن اپنے چہرے کو نقاب سے ڈھانپ رکھا تھا۔ جسٹس راہول بھارتی نے خاتون وکیل سے چہرے سے نقاب ہٹانے کو کہا’لیکن قادری نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ خاتون وکیل نے کہا کہ چہرہ ڈھانپنا اس کا بنیادی حق ہے اور عدالت اسے مجبور نہیں کرسکتی ۔جسٹس بھارتی نے درخواست پر سماعت سے انکار کر دیا اور کہا کہ پیروی کیلئے پیش خاتون کو وکیل کے طور پر نہ تو غور کیا جا سکتا ہے اور نہ قواعد کے مطابق قبول کیا جا سکتا ہے کیونکہ چہرہ ڈھانپے سے پتہ نہیں چلتاکہ وہ خاتون کون ہے یا اس کی شناخت کیا ہے۔