عدم مساوات کی رپورٹ ناقص …حکومت کا کیا عجیب بہانہ ہے!

,

   

نئی دہلی : مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے منگل کو عدم مساوات کی عالمی رپورٹ کو ناقص قرار دیا اور اِس کی ترتیب کے طریقہ کار کو قابل اعتراض کہا۔ اُن کا تبصرہ ورلڈ اِن ایکوالیٹی رپورٹ 2022 ء کے تناظر میں ہے جسے پیرس کے ورلڈ اِن ایکوالیٹی لیاب نے شائع کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہندوستان غریب اور عدم مساوات کا شکار ملک ہے اور آمدنی و دولت دونوں معاملوں میں وہ فہرست کے دوسرے نصف میں آتا ہے۔ نرملا نے راجیہ سبھا سیشن کے دوران کہاکہ یہ رپورٹ جس میں ہندوستان کو غریب اور عوام میں کافی عدم مساوات والا ملک قرار دیا گیا، وہ نقائص والی رپورٹ ہے جس کے طریقہ کار پر اطمینان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ رپورٹ گزشتہ سال 7 ڈسمبر کو جاری کی گئی تھی۔ اِس میں بتایا گیا کہ ہندوستان کی آبادی سالانہ اوسطاً 53,610 کماتی ہے اور ابتدائی 10 فیصد لوگ 20 گنا زیادہ کماتے ہیں جو تقریباً 11,66,520 روپئے ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ملک کے امیر ترین 10 فیصد لوگ جملہ دولت کے 76 فیصد حصے کے مالک ہیں۔ 2021ء میں اُن کے پاس قومی آمدنی کا 57 فیصد حصہ رہا جبکہ دوسرے نصف کے پچاس فیصد لوگوں کی آمدنی گھٹ کر 13 فیصد ہوگئی۔ سرکردہ ایک فیصد لوگوں کے پاس جملہ قومی آمدنی کا پانچواں حصہ موجود رہا۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ عالمی کمائی کے معاملے میں جنس کے اعتبار سے بھی ہندوستان میں عدم مساوات پائی جاتی ہے۔ ہندوستان میں خواتین نے 2020 ء میں لیبر زمرہ کی آمدنی میں صرف 18.3 فیصد حاصل کیا۔ یہ تناسب لگ بھگ آدھا ہے جب ترقی پذیر معیشتوں پر نظر ڈالی جائے جیسے برازیل (38.5فیصد)اور چین (33.4 فیصد) ۔ نیز عالمی اوسط (34.70فیصد) ۔ اِن کے علاوہ دیگر عوامل بھی ہیں جن کے سبب ہندوستان عالمی فہرست میں عدم مساوات والا ملک بن کر اُبھرا ہے۔ کئی دیگر عالمی رپورٹس کو حکومت نے قبول کیا لیکن اِس مرتبہ موافق نتیجہ نہیں آیا تو مودی حکومت رپورٹ کو مسترد کررہی ہے۔