راق کے وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملک میں بڑھتے مظاہروں کے پیش نظر جلد اپنا استعفیٰ پارلیمان کو پیش کر دیں گے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق جمعے کو عراقی وزیرِ اعظم کے دفتر سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں عادل عبدالمہدی نے کہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو اپنا استعفیٰ جلد پیش کر دیں گے تاکہ قانون ساز نئی حکومت کا انتخاب کر سکیں۔
عادل عبدالمہدی کا بیان عراق کے با اثر مذہبی رہنما آیت اللہ علی ال سیستانی کے مذمتی بیان کے بعد سامنے آیا ہے۔ آیت اللہ علی سیستانی نے جمعے کو لیڈر شپ کی تبدیلی کی کال دی تھی اور مظاہرین کی ہلاکتوں کی مذمت کی تھی۔
عراق کے با اثر مذہبی رہنما نے قانون سازوں کو کہا تھا کہ وہ حکومت کے لیے اپنی حمایت پر نظر ثانی کریں۔
انہو
ں نے مشورہ دیا تھا کہ پارلیمان لیڈر شپ میں تبدیلی لائے تاکہ ملک میں جاری پرتشدد واقعات کا خاتمہ ہو سکے۔
آیت اللہ علی سیستانی نے فوج پر زور دیا تھا کہ وہ مظاہرین کو قتل کرنے سے گریز کریں۔ با اثر رہنما نے مظاہرین سے بھی پر تشدد کارروائیوں سے گریز کرنے کی اپیل کی تھی۔
آیت اللہ سیستانی کے بیان کے ردعمل میں عراقی وزیرِ اعظم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شیعہ رہنما کی کال کے جواب میں وہ جتنا جلد ممکن ہو سکا، اپنا استعفیٰ پارلیمنٹ کو پیش کر دیں گے اور مطالبہ کریں گے کہ ان کا استعفیٰ منظور کیا جائے۔
یہ بیان وزیرِ اعظم آفس کی جانب سے تحریری طور پر جاری کیا گیا ہے اور اس پر عراقی وزیرِ اعظم کے دستخط موجود ہیں۔ البتہ بیان میں یہ واضح نہیں ہے کہ وزیرِ اعظم اپنا استعفیٰ کب پیش کریں گے۔
خیال رہے کہ عراقی وزیرِ اعظم کا استعفیٰ کا اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب جمعرات کو عراق کی تاریخ میں ایک اور خونی دن دیکھا گیا۔ گزشتہ روز مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 62 افراد کی جان گئی تھی۔
جمعرات کو ہی مشتعل مظاہرین نے نجف میں ایرانی قونصلیٹ کو بھی آگ لگا دی تھی۔
دوسری جانب عراق میں جمعے کو بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور اس دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ عراق میں گزشتہ کئی ہفتوں سے حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں 400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
مظاہرین کا الزام ہے کہ حکومت کرپشن میں ملوث ہے جب کہ مظاہرین ملکی معاملات میں ایران کی مداخلت کے خاتمے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔