عربوں کو اسرائیل سے دوستی کروانے امریکہ پھر سرگرم

,

   

بائیڈن بھی ٹرمپ پالیسی پر گامزن، دباؤاورمراعات کا استعمال ،غزہ پر وحشیانہ کارروائی کا عرب ملکوں پرکوئی اثر نہیں!

واشنگٹن:امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی ڈیموکریٹ پارٹی کے دیگر اراکین سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مبینہ ‘ابراہیمی معاہدے‘ کو اپنی پالیسی کے حصے کے طورپر آگے بڑھا رہے ہیں۔صدرجوبائیڈن عرب ریاستوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے نہ صرف ترغیب دے رہے ہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ ان کے موجودہ معاہدوں کو مستحکم کرنے پربھی زور دے رہے ہیں، جوغزہ پٹی میں گزشتہ ماہ کی تباہ کن جنگ کے بعد متاثر ہوگئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں سن 1948 سے ہی یہودی ریاست کی خطے میں چلی آ رہی دشمنی اور تنہائی کو کم کرنے کے خاطر ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ برس اسرائیل اور چار عرب ریاستوں کے درمیان معاہدہ کرانے کے لیے امریکی دباؤ اور مراعات کا استعمال کیا تھا۔اے پی کے مطابق بائیڈن انتظامیہ بھی اب اسی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے دیگر عرب حکومتوں کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور معاہدوں پر دستخط کے نئے امکانات دیکھ رہی ہے۔ امریکی عہدیداروں نے تاہم ان مسلم اورعرب ممالک کے نام بتانے سے انکار کیا جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔عالمی نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق سوڈان ان متوقع ممالک میں سے ایک ہے، جس نے اسرائیل کے ساتھ پرامن تعلقات کے عمومی اعلامیہ پر تودستخط کیے ہیں لیکن سفارتی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں کیا ہے۔ عمان بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا ایک ممکنہ عرب ملک ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک اسے عدم مداخلت کی اس کی پالیسی کی وجہ سے مشرق وسطی کے مسائل پر ثالثی کے لیے پرکشش ملک کے طور پر دیکھتے رہے ہیں۔لیکن گزشتہ ماہ اسرائیل اور حماس درمیان گیارہ روز تک جاری رہنے والی جنگ اور خونریزی نے ایسے نئے معاہدوں کے لیے سفارت کاری کی امریکی کوششوں کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ گزشتہ ماہ غزہ پٹی میں اسرائیلی حملوں میں 66 بچوں سمیت 245 فلسطینی شہیدہوگئے تھے ان میں سے کم از کم 22 ایک ہی خاندان کے افراد تھے۔ ان ہلاکتوں اور تباہ کاریوں پر عرب ممالک کے عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ ان میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش شامل تھے جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ گزشتہ برس اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کی وجہ سے سوڈانی عوام پہلے ہی اپنی حکومت کے موقف پر تقسیم ہوچکے ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں سوڈان پر سے امریکی پابندیوں کو ختم کرنے کی پیشکش کی تھی۔دوسری طرف بائیڈن انتظامیہ اسرائیل میں سابق امریکی سفیر ڈین شاپیر کو اسرائیل اور عرب ملکوں کے مابین معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے ذمہ داریاں سونپنے پر غور کررہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی حکام چار عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین کاروبار، تعلیم اور دیگر تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے بھی کام کررہے ہیں۔امریکہ کو امید ہے کہ اس کی اس پالیسی کی کامیابی کے نتیجے میں خطے میں دو طرفہ معاہدوں کو بھی فروغ ملے گا۔امریکی حکام کا کہناہے کہ اس دوران امریکہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے حل کے لیے بھی کام کرتا رہے گا۔