عرب رہنماؤں کی القدس اورغرب اردن میں اسرائیلی اقدامات کی مذمت

   

قاہرہ : عرب اور اسلامی ممالک کے متعدد رہنماوں اور عہدے داروں نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کے حالیہ اقدامات کی مذمت کی ہے۔ان مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل اورفلسطینیوں کے درمیان تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔قاہرہ میں منعقدہ اجلاس کی میزبانی عرب لیگ نے کی تھی۔اس میں مصرکے صدرعبدالفتاح السیسی، اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور فلسطینی صدرمحمود عباس کے علاوہ کئی وزرائے خارجہ اورسینئر حکام نے شرکت کی تھی۔اجلاس میں مقررین نے مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے’’یک طرفہ اقدامات‘‘ کی مذمت کی۔ان میں فلسطینیوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں ،گھروں کی مسماری اور بستیوں کی توسیع شامل ہے۔انھوں نے اسرائیلی حکام کے شہرکے متنازع مقدس مقام (مسجدِ اقصیٰ) کے دورے کی بھی مذمت کی جو یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے مقدس ہے اور اکثراسرائیل۔ فلسطینی کشیدگی کا مرکز رہا ہے۔اسرائیلی حکومت کی جانب سے فوری طور پراس بیان پرکوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔حکام نے مسجدِاقصیٰ کے محافظ کے طورپراردن کے کردار کی حمایت کی جو اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔مسلمانوں کا پہلا قبلہ اوّل مسجدِ اقصیٰ قدیم شہرمیں ایک پہاڑی کی چوٹی پرواقع ہے۔یہ یہودکے لیے سب سے مقدس مقام ہے اور وہ اسے ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں کیونکہ یہ قدیم زمانے میں یہودی معابد کا مقام تھا۔واضح رہے کہ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے بیت المقدس پرقبضہ کرلیا تھا۔اس کے بعد سے یہودیوں کومسجد اقصیٰ میں جانے کی اجازت دی گئی ہے لیکن وہ وہاں عبادت نہیں کر سکتے۔ اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا غیرمنقسم دارالحکومت قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنی مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے خبردارکیاکہ اس مقام کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے کسی بھی اسرائیلی اقدام کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور کہا کہ ان سے اسرائیل۔ فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے مستقبل کے مذاکرات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اقدامات دیرینہ تنازعہ کے دوریاستی حل میں رکاوٹ پیدا کریں گے جس سے فریقین اور پورے مشرقِ اوسط کے پاس مشکل اور سنگین آپشنز ہوں گے۔