عرب ممالک فلسطینی پناہ گزینوں کو لینے کیلئے کیوں تیار نہیں؟

   

نیویارک : مصر سمیت دیگر عرب ممالک حماس اسرائیل جنگ کے دوران پناہ کی تلاش میں علاقے سے نکلنے والے فلسطینیوں کی اپنے ملکوں میں منتقلی کے لیے تیار نہیں ہیں۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق مصر اور اردن کی سرحدیں غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے سے ملتی ہیں اور دونوں ہی ملک فلسطینیوں کو پناہ دینیسے انکار کر چکے ہیں۔ دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کا مستقبل بنیادوں پر اخراج چاہتا ہے تاکہ فلسطینیوں کی ایک الگ ریاست کے مطالبے کو ختم کیاجاسکے۔خیال رہے کہ اردن میں پہلے ہی بڑی تعداد میں فلسطینی آباد ہیں۔اس وقت فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی نسلوں کی تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے اور ان میں سے زیادہ تر مغربی کنارے، غزہ، لبنان، شام اور اردن میں کیمپوں وغیرہ میں مقیم ہیں۔فلسطینیوں کی حالیہ تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اپنے گھروں اور علاقوں سے بے دخلی اس خوف کی بنیاد دکھائی دیتی ہے کہ دوسرے عرب ملک انہیں لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کی بے دخلی کے عمل کا آغاز سن 1948 میں تقریباً اسی وقت سے ہوا جب اسرائیل معرض وجود میں آیا۔ اس وقت کوئی سات لاکھ فلسطینیوں کو اس علاقے سے جو اس وقت اسرائیل ہے، نکال دیا گیا تھا یا وہ خود ہی وہاں سے چلے گئے تھے۔ فلسطینی اسے نقبہ کا نام دیتے ہیں جس کے معنیٰ اردو میں تباہی یا بربادی کے ہیں۔اوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ اسرائیل اور غزہ کی صورت حال پر سلامتی کونسل کی قرارداد پر ووٹ دے رہی ہیں۔ 1967 میں مشرقِ وسطیٰ کی جنگ ہوئی اور اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرلیا تو تین لاکھ مزید فلسطینیوں کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ اور ان میں سے زیادہ تر نے اردن میں پناہ حاصل کی۔اسرائیل ان پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپس آنے کی اجازت دینے سے انکار کرتا رہا ہے اور اس کا موقف ہے کہ اس سے ملک میں یہودیوں کے اکثریتی توا زن کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے گا۔