عرض داشت مہاراشٹر: مفاد پرست سیاسی گٹھ جوڑ کا آخری جہنم …ملک جائے بھاڑ میں

   

بھارتیہ جنتا پارٹی اور این۔سی۔پی۔ کی ملی جلی حکومت میں جمہوریت ہاری باقی سب جیتے

صفدرا مام قادری

تقریباً ایک مہینے کے سیاسی ڈرامے کا انجام سامنے آگیا۔ عوام نے جس پارٹی کو سب سے زیادہ سیٹیں دی تھیں، اس کی قیادت میں حکومت قائم ہوگئی۔ دیویندر فرنویس پھر سے وزیر اعلیٰ بن گئے اور اجیت پوار نائب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے راشٹروادی کانگریس پارٹی یعنی شرد پوار کی نمایندگی کرتے ہوئے سامنے آئے۔ منہ اندھیرے میں حلف برداری ہوئی۔ اخباروں کی بھی مجبوری ہے کہ اب چوبیس گھنٹے بعد ہی خبر دی جاسکے گی۔ امیت شاہ یا شرد پوار یا دونوں ہی بڑے کھلاڑی بن کر ابھرے یا کوئی غیبی سیاسی قوت نے اس ڈرامے کو یہاں تک پہنچایا ، اس پر آنے والے وقت میں مزید اطلاعات حاصل ہوں گی اور اسی وقت پتا چل سکے گا کہ اصلی ہیرو کون ہے یا اس کھیل میں پدّی کون ثابت ہوا۔
راشٹروادی کانگریس پارٹی کے قائد شرد پوار پر آغاز میں ہی چند لفظ خرچ کردیے جائیں تو بہتر ہوگا۔ وہ کانگریس کے اُن لیڈروں میں ہیں جن کی حیثیت کم و بیش سدابہار کی رہی ہے۔ چاہے وہ وزیر اعلیٰ رہے ہوں یا مرکزی حکومت میں کابینہ وزیر۔ وہ کانگریس سے علحدہ ہوکر بھی اس پارٹی سے اتنی ہی دور رہے جتنی دوری میں ان کا فائدہ لازمی طور پر رہے۔ کانگریس سے علحدہ ہوکر جب انھوںنے این۔سی۔پی۔بنائی، اس وقت کی ان کی بنیادی شکایتیں ہر چند کہ لوگ بھول گئے ہوں مگر انھیں بہرطور یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ شرد پوار نے اس دوران این۔ڈی۔اے۔ اور یو۔پی۔ اے۔ دونوں سے ہی حسبِ ضرورت اور حسبِ مفاد نزدیکی یا دوری بناکر اب تک چلتے رہے ہیں۔ بھلے اس بیچ مہاراشٹر میں ان کی طاقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے کم ہوئی مگر وہ بازار میں بہرطور بنے رہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ راتوں رات ان کی پارٹی نے بھارتیہ جنتا پارٹی سے مل جل کر حکومت بنانے کا فیصلہ کیا اور واقعی نئے سورج کی آمد آمد تک ہندستان میں ایک نئی سیاسی تاریخ لکھ دی گئی۔
گذشتہ ایک مہینے کے سیاسی دائوپیچ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو سب سے زیادہ بلند آہنگ گفتگو شیو سینا کی رہی۔ اُدھوٹھاکرے سے لے کر سنجے راوت تک سب کی گل افشانیِ گفتار دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ان کی شکایت محض اتنی تھی کہ اقتدار میں کچھ زیادہ حصہ چاہیے تھا۔ ہرچند کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے سیاسی طاقت میں وہ وہاں کمزور ثابت ہوتے چلے جارہے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جس کے ہاتھ میں مملکتِ ہند کی زمام ہے، اس کے علاقائی قائد کے طور پر فرنویس نے سنجیدگی کے ساتھ برتاوکیا اور جب انھیں محسوس ہوا کہ ان کے دیرینہ رفیق شیو سینا کے افراد ساتھ نہیں دے سکیں گے ، انھوںنے سرکار بنانے سے معذرت کرلی اور اپنا استعفیٰ گورنر کو پیش کرآئے۔ اس دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کے خیمے میں بالعموم خاموشی رہی اور بڑے بول کہیں سے بھی سامنے نہیں آئے۔ اس کے برعکس موہن بھاگوت نے ایک روز بہ طور تنبیہ یہ بھی کہا کہ رفقاے دیرینہ سے دوری اختیار کرنے کا نقصان نہیں اٹھانا چاہیے۔ شرد پوار اور شیو سینا یا کانگریس سے مل جل کر سرکار بنانے کا فعل خطرناک تو ہوسکتا تھا مگر بظاہر یہی کھیل چلتا رہا۔ این۔سی۔پی۔ اور کانگریس کی ملاقات یا این ۔ سی۔ پی۔ اور شیوسینا کی ربط باہمی یا دلی اور ممبئی کے بیچ تبادلۂ خیالات ؛ کئی کئی رائونڈ ہوئے۔ ان تمام کاموں میں شرد پوار آگے نظر آرہے تھے۔ اونچے سُر میں بولنے والے اسے بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست اور سیکولر مورچے کی جیت کے طور پر پیش کرنے لگے تھے۔ جمعہ کی شام تک شرد پوار ادھو ٹھاکرے کو وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف برداری کے لیے میدان میں پیش کرتے ہیں اور سنیچر کی صبح تک ان کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر ایک نیا سیاسی مورچہ قائم کرتے ہوئے حکومت بنالیتی ہے۔
تازہ صورت حال یہ بھی ہے کہ اس تال میل سے شرد پوار بھی خود کو الگ تھلگ دکھانے کی کوشش کریں گے اور ممکن ہے قومی سیاست میں اپنے لیے جگہ قائم رکھنے کے لیے انھیں بھارتیہ جنتا پارٹی سے الگ رہنے کے فائدے سے دست برداری بھی نہیں چاہیے۔ شرد پوار پرانے کھلاڑی ہیں۔ آخری مغل بادشاہوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ انگریزوں کے ساتھ بھی تھے اور روہیلے پٹھانوں یا مراٹھوں کو بھی اپنی فوج دے دیتے تھے۔ چت بھی ان کی تھی اور پَٹ بھی ان کی مگر دونوں مورچے پہ ہارے وہی۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات گشت کرنے لگی ہے کہ شرد پوار اور ان کی پارٹی کے اعلیٰ عہدے داران سی۔بی۔آئی۔ یا دوسری تفتیشی ایجنسیوںسے ڈر کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے چنگل میں تو نہیں پہنچ گئی۔ امیت شاہ نے کرناٹک سے لے کر ہریانہ تک یہی فارمولا اپنایا۔یہاں تو اس بات کے بارے میں بھی اندیشے پیش کیے جارہے ہیں کہ مکیش امبانی اور ریلائنس بھی اس تماشے کا حصہ ہے اور وہ کیوں نہ ہو بات مہاراشٹر اور ممبئی کی ہے۔ جہاں کی سیاسی سرگرمیوں سے پرے جاکر وہ خود کو زیادہ محفوظ تسلیم کرسکتے ہیں۔
اترپردیش کے بعد مہاراشٹر پارلیمنٹ اور اسمبلی کے حلقوں کی تعداد کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ مہاراشٹر کو ہندستان کی صنعتی راجدھانی بھی کہتے ہیں اسی لیے ٹاٹا برلا اور ریلائنس کی جائز ناجائز مداخلت کے بغیر وہاں کی کوئی حکومت چل ہی نہیں سکتی یا چلنے نہیں دی جاسکتی۔ کبھی مافیائوں کا بالخصوص بین الاقوامی جرائم پیشہ افراد کا وہاں کی سیاست پر خاص پکڑ ہوتی تھی مگر اب سب کچھ صنعت کاروں کی مٹھی میں قید ہے۔ نریندر مودی کی حکومت جب پہلی بار آئی، اسی وقت یہ بات شاہ سرخیوں میں واضح ہوگئی تھی کہ اس کی باگ ڈور امبانی اور اڈانی جیسے کاروباری افراد کے ہاتھ میں ہوگی۔
شرد پوار ممبئی کی سیاست کے ایسے قطب نما ہیں، جن سے کسی طرح کے افراد کا رشتہ ممکن ہے۔ ان کی سیاسی اور سماجی دوستی اور دشمنی کا ہمیشہ ایک ہی خانہ رہا ہے۔ اسی تربیت اور تجربے کا یہ انجام ہے کہ وہ بارہ گھنٹے میں افکار و نظریات کے انقلابات پیش کرسکتے ہیں۔ کہنے والے یہ بھی بتانے لگے ہیں کہ شرد پوار کی طبعی عمر اور صحت کا تقاضہ بھی یہ ہے کہ وہ جوڑ توڑ کی سیاست کے مرکز سے ذرا دوری اختیار کرلے۔ کئی بار آنے والے نائب صدر اور صدر کے طور پر بھی شرد پوار کے نام کا ذکر ہوتا ہے۔ اس کام میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے دوری ہمیشہ رکاوٹ کی طرح سے ہے۔ شرد پوار کا فائدہ یہ ہے کہ سونیا گاندھی کے خلاف مہم چلا کر اور کانگریس کو جڑ سے کمزور کرنے کے عوض انھیں کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور چاہیے۔ اس لیے ان امکانات پر غور کرنا چاہیے کہ آخر دلی میں شرد پوار کانگریسیوں کے بیچ زیادہ گھرے رہے۔ بمبئی میں شیو سینا کے افراد ان کے ارد گرد رہے مگر وزیر اعظم سے ایک مختصر ملاقات نے فوری طور پر اتنا بڑا نتیجہ پیش کردیا جس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ آنے والے وقت میں مہاراشٹر کی حکومت سے زیادہ شرد پوار کے مستقبل اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے پیش کیے جانے والے تحفے کی طرف ہماری زیادہ توجہ رہے گی۔
[email protected]
[مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں صدر شعبۂ اردو ہیں]