پی چدمبرم سابق مرکزی وزیر داخلہ
چند ہفتہ قبل ایک کالم میں راقم الحروف نے قانون کی حکمرانی اور قانون کے ذریعہ حکمرانی کے درمیان فرق سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ جہاں تک قانون کی حکمرانی کا سوال ہے اسی کے تحت قانون ہی سب سے اعلیٰ ہے اور تمام حکمرانوں کا قانون پر چلنا قانون کو تسلیم کرنا ضروری ہے جبکہ دوسرے معاملہ میں ایسا ہے کہ قانون ان کا خادم ہے اور خادموں کو کسی بھی وقت تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی جب بستیاں بسانے اور برادریوں کا آئیڈیا منظر عام پر آیا تب سے انسانوں نے قواعد و ضوابط اور اصول بنائے اور اسے اپنایا۔
جنگ کے اُصول : ۔ جس طرح انسانوں نے اپنی بہبود کے لئے اور خود میں ڈسپلن پیدا کرنے کے لئے قوانین بنائے اسی طرح جنگ کے بھی کچھ اصول و قواعد بنائے گئے۔ اس ضمن میں آپ کو یہ بتانا ضروری ہیکہ دونوں جنگ عظیم کے بعد عالمی برادری نے چار جینوا کنونشن اور ان کے پروٹوکولس اپنائے اور ان کی تمام 196 ملکوں نے توثیق کی۔ یہ کنونشن (قرار دادیں) اور عالمی انسانی قانون پر مشتمل ہے۔ عالمی برادری نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ چار قواعد بنائے جس کے تحت بیماروں، زخمیوں، طبی عملہ اور مذہبی رہنماؤں کو جنگ کے دوران تحفظ فراہم کیا گیا۔ دوسرا جو قاعدہ ہے اس کے تحت جنگ کے دوران زخمیوں، بیماروں کی نگہداشت (علاج و معالجہ) کو یقینی بنانے اور سمندروں میں تباہ شدہ جنگی جہازوں کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا۔ جنگ کے ان قواعد میں تیسرے قاعدہ کے تحت واضح ہدایت دی گئی ہیکہ جنگی قیدیوں کے ساتھ انسانی بنیادوں پر سلوک روا رکھا جائے۔ اس کے علاوہ عام شہریوں بشمول مقبوضہ علاقوں کے مکینوں کا تحفظ کیا جائے۔ تاہم جنگوں کے جو اصول و قواعد بنائے گئے ان کی ویٹنام، عراق اور لیبیا جنگوں میں خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ان کی دھمجیاں اڑائی گئیں جبکہاب روس، یوکرین جنگوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں بھی ان قواعد کی خلاف ورزیاں کی گئیں۔ ان جنگوں میں عصمت ریزی اور لوٹ مار عام سی چیز ہوگئی۔ آپ کو بتادیں کہ روس نے یوکرین کے شہری علاقوں میں اسپتالوں اور اسکولوں پر بم برسائے جس میں بے شمار جانوں کا اتلاف ہوا۔ حال ہی میں ساری دنیا نے دیکھا کہ روس کے ایک ٹرانسپورٹ ایرکرافٹ کو 65 یوکرینی جنگی قیدیوں کو ے جارہا تھا اسے مار گرایا گیا۔ اس طیارہ میں 9 ارکان عملہ بھی سوار تھے۔ جنگی قیدیوں کی ہلاکت کا یہ واقعہ 24 جنوری 2024 کو پیش آیا۔ روس نے اس واقعہ کے لئے یوکرین کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا اور یوکرین نے اس الزام کی تردید کی ۔ اب چلتے ہیں اسرائیل۔ حماس (فلسیطین) جنگ کی طرف، اسرائیل نے حماس پر الزام عائد کیا کہ اس نے 7 اکتوبر 2023 کو اس جنگ کا آغاز کیا۔ حماس کے جنگجوؤں نے اس دن جنوبی اسرائیل پر اچانک حملہ کردیا جس میں 1200 سے زائد اسرائیلی مارے گئے اور 240 کو یرغمالی بنالیا گیا۔ اس کے جواب میں گزشتہ چار ماہ سے اسرائیل نے جو خطرناک ردعمل ظاہر کیا وہ یقینا بہیمانہ اور ظالمانہ اور نامناسب ہے، باالفاظ دیگر پوری طرح انسانیت کے خلاف ہے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو تنگ و تاریک غزہ پٹی تک محدود ہونے پر مجبور کردیا ہے اور اب تک اسرائیلی فورس کے ہاتھوں 25 ہزار (فلسطینی میڈیا اور الجزیرہ کے مطابق تقریباً 27 ہزار فلسطینی شہید ہوئے ہیں) فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں ان دونوں جنگوں میں (روس۔ یوکرین، جنگ اور اسرائیل۔ فلسطین جنگ) عالمی سطح پر جنگوں کے جو اصول و قواعد بنائے گئے ان کی صریح خلاف ورزی کی گئی۔ ایک طرح سے ان قواعد کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ ہاں! ایک اور بات آپ کو بتادوں کہ اگر جنگی اصولوں کو پامال کیا جاتا ہے تو افراد اور ممالک اقوام متحدہ کی عدالتوں سے رجوع ہوکر جنگی اصولوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والے ملک کے خلاف کارروائی کرواسکتے ہیں۔ اس کے خلاف جنگی جرائم کے تحت مقدمات دائر کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھائے، فلسطینی آبادیوں پر ہزاروں ٹن بم اور میزائیل برساکر فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کی اس کے خلاف جنوبی افریقہ نے اسے عالمی عدالت انصاف میں گھسیٹا اور الزام عائد کیا کہ اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے اور اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے۔ جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ اس نے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام کرتے ہوئے قتل عام کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشنس کی خلاف ورزی کی ہے۔ سنگم ادب (300 قبل مسیح) میں جنگ کے اصول و قواعد پر ایک خوبصورت اور پراثر نظم موجود ہے۔ جس میں پرزور انداز میں کہا گیا ہیکہ جنگ کے دوران گائیوں، شریف النفس برہمنوں، خواتین، بیماروں، لاولد جوڑوں کو ان مقامات سے محفوظ مقامات منتقل کیا جائے جہاں جنگ ہو۔ غرض اس نظم میں ان وجوہات پر بھی روشنی ڈالی جو جنگوں کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ برہمی بتایا گیا کہ بادشاہ یا راجہ دھرم (مذہب) کا راستہ بنانے کے بعد جنگ میں شریک ہوگا۔ اسی طرح تامل شاعر کلین (1180 قبل مسیح) نے اپنے کلام میں جنگ کی جس طرح منظر کشی کی اس سے میں بھی ششدر و حیران رہ گیا۔ انہوں نے شری ر من اور روانا (راون) کے درمیان جنگ کے آخری منظر کو اپنے کلام میں پیش کرتے ہوئے بہت ہی خوبصورت انداز میں بتایا کہ رمن نے راونا کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ یوں کہا تھا : ۔
تم اپنے تمام ہتھیاروں کی آزمائش کرچکے ہوا تمہارے پاس اب کوئی ہتھیار باقی نہیں رہا، اب تمہارا حال برا ہوگیا ہیکہ اپنے دفاع کے قابل بھی نہیں رہے۔ اس حالت میں اگر میں تم سے لڑوں تم پر حملہ کروں تو یہ میرا دھرما (مذہب) نہیں ہوگا۔ آج چلے جاؤ جنگ کے لئے کل آنا اور پھر میں تم سے لڑوں گا۔
عشق کے اصول : ۔ عشق و محبت کے اصولوں پر کئی کتابیں ہیں اس طرح پیار کرنے والوں پر بھی لاکھوں کی تعداد میں کتابیں تحریرکی گئیں ہیں اور ان کتابوں کا مقبول ترین عنوان ایسا لگتا ہے کہ پیار کا اصول ہے مثال کے طور پر پیار کے سیدھے سادھے اصولوں سے لے کر پیار کے 8 اصول اور پھر اس سے لے کر پیار کے 40 اصول تک ایسی بے شمار کتابیں ہیں جو پیار و محبت اور عشق پر لکھی گئی ہیں اور میں اس بات کا برملا اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ان کتابوں میں سے کسی بھی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا لیکن بظاہر اس قسم کی کتابوں کے جو قارئین ہے ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ واضح رہے کہ میں پیار کے بصیرت افروز اصول و قواعد کی تلاش کررہا تھا کہ چند اصول میرے ہاتھ لگے، میری نظروں سے گذرے جس میں ولیم شیکسپیر، آسکر وائیلڈے، جارج برنارڈ شاہ، البرٹ آئسٹائن کے اصول شامل ہیں۔ ولیم شیکسپیر کا پیار و محبت کے بارے میں کہنا تھا کہ اس پر اپنا پیار اپنی محبت ضائع مت کیجئے جسے آپ کی محبت کی قدر نہیں۔ آسکروائیلڈے کے مطابق ہر کسی کو ہمیشہ پیار و الفت میں گرفتار رہنا چاہئے اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کے کبھی شادی نہ کرنے کی وجہ بن جاتی ہے۔ البرٹ انسٹائن پیار و محبت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آپ پیار میں ٹھوکر کھاتے ہیں تو سنبھلنا بڑا آسان ہوتا ہے لیکن اگر آپ پیار و عشق میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو دوبارہ کھڑا ہونا ناممکن ہوجاتا ہے۔ بہرحال پیار کے جو مذکورہ اصول ہم نے آپ کو بتائے ہیں وہ مضحکہ خیز ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی ہوسکتے لیکن ان میں سے بعض اصولوں کو سمجھنا ممکن ہے۔ میرے پسندیدہ شاعر اور فلسفی نے اپنے شاندار کلام TIRUKKAL (500 قبل ہے) کا ایک پورا حصہ پیار پر لکھا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لاگیا جاسکتا ہے کہ صرف پیار پر جو حصہ ہے وہ 25 باب اور 250 اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں انہوں نے پیار کے جو اصول بتائے ہیں ان میں چند آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں، وہ لکھتے ہیں عاشقوں کے درمیان جب نظروں سے نظریںٹکراتی ہیں تب الفاظ کا کوئی استعمال باقی نہیں رہتا۔ الفاظ خاموش ہو جاتے ہیں، پیار کو زور زبردستی روکنے سے نہیں روکے گا بلکہ یہ آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوتا ہے۔
سیاست کے اصول : پیار و محبت کی بہ نسبت سیاست کے اصول و قواعد مختلف ہوتے ہیں جہاں سیاست ہوتی ہے اس سیاست پر قانون کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ سیاست کے معاملہ میں یہ اچھی بات ہیکہ سیاست کے اصولوں و قواعد کو سیاست کے قانون کے ساتھ غلط ملط نہیں کیا جائے۔ قانون ایک چیز ہے اور اصول ایک چیز ہے جس انداز میں کھیل کھیلا جاتا ہے جس کا مقصد بیان کردہ قوانین کو شکست دینا ہوتا ہے، مثال کے طور پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے اعتراض کو روکنے کے قانون کو اس انداز میں ادا کیا جاتا ہے جو اپنی مرض کے مطابق ہو۔