انقلابی و روحانی رہنما کے یوم وفات پر ڈاکٹر محمد قطب الدین ماہر نفسیات شکاگو امریکہ کا خراج،عظیم شاعر کے پیغام کو عام کرنے پر زور
نارائن پیٹ۔/26 اپریل، ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) علامہ اقبال ؒ ہمہ گیر صلاحیتوں کے حامل تھے ، ان کے اندر قوم و ملت کا درد تھا، انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعہ جہاں قوم کی رہنمائی فرمائی وہیں قوم و ملت کی ترقی و کامیابی کیلئے انہیں خوب جھنجھوڑنے کی کوشش کی ۔ وہ جہاں مخلوق کو خالق سے جوڑنے کی کوشش کرتے تھے وہیں ان کے اشعار سے اس بات کی ترغیب بھی ملتی ہے کہ تقدیر پر شکوہ کے بجائے خالق کائنات کی جانب سے عنایت کردہ نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں اور اس کیلئے عزم و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر محمد قطب الدین ماہر نفسیات شکاگو امریکہ متوطن نارائن پیٹ نے علامہ اقبال ؒ کے یوم وفات کے موقع پر اپنے تاثرات میں کیا۔ انہوں نے علامہ اقبالؒ کے اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ:
عبث ہے شکوہ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟
یعنی جب اللہ نے تمہیں بہترین صلاحیتوں سے نوازاہے تو پھر تقدیر پر شکوہ کیوں؟ خود اپنی تقدیر کے خالق کیوں نہیں بنتے؟آج ہم علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کو یاد کرتے ہیں کیوں کہ وہ ایک عظیم شاعر، مفکر، فلسفی، ملتِ اسلامیہ کے انقلابی اور روحانی رہنما ہیں۔ ہمیں صرف ان کی یاد ہی نہیں منانی ہے بلکہ ان کے پیغام کو اپنے اندر بیدار کرنا چاہئے تاکہ ہمارا ذہن اور ضمیر جاگ ا ٹھے ۔اقبال کی شاعری محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک الہامی للکار ہے۔ وہ ہمیں جگاتے ہیں، جھنجھوڑتے ہیں، اور ہماری دینی و اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہیں جن میں چند حسب ذیل ہیں:
1۔ خودی کا پیغام عرفان ۔ اپنی پہچان ۔اقبال کا سب سے اہم پیغام “خودی” ہے۔یعنی انسان اپنی روحانی اور ذہنی قوت کو پہچانے۔ یہ غرور نہیں، بلکہ اللہ کی عطا کردہ طاقت کا ادراک ہے۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
-2۔ شکوہ نہیں، شعور اور عمل چاہیئے
ہم اکثر تقدیر کا شکوہ کرتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان، عقل، حکمت، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دے چکا ہے۔ اب ہمیں عمل کرنا ہے، راستہ بنانا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نْوری ہے نہ ناری ہے
-3۔ قرآن – صرف تلاوت نہیں، عمل کی کتاب ہے
اقبال کے نزدیک قرآن زندگی کا منشور ہے۔یہ محض رسم کی کتاب نہیں، بلکہ انقلاب اور اصلاح کا پیغام ہے۔ ہمیں اسے صرف پڑھنا نہیں، عمل میں لانا ہے۔ شاہین ۔ اقبال کا مثالی اور عملی مسلمان۔ اقبال کے نزدیک شاہین خودداری، بلند پروازی اور بے خوفی کی علامت ہے۔ وہ تنہا شکار کرتا ہے، بلندیوں پر رہتا ہے، اور کبھی نیچے نہیں گرتا۔
پروں سے نہیں، حوصلے سے اْڑان ہوتی ہے
فضائیں بھی جھکتی ہیں، حوصلہ اگر جوان ہو
اقبال کا خواب۔ نئی امت، نیا حوصلہ، نیا جنون، نیا پیغام نیا سویرا۔اقبال صرف ماضی کی عظمت کا ماتم نہیں کرتے، وہ آنے والے کل کے لیے ایک بیدار امت کا خواب دیکھتے ہیں۔جو عدل، علم، ایمان، شجاعت اور قیادت سے دنیا کو روشن کرے۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
یا اللہ! علامہ اقبالؒکو جنت الفردوس کے اعلیٰ مقامات عطا فرما، اور ہمیں ان کے پیغام کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔ہم اقبال کے اشعار نہ صرف پڑھیں بلکہ اقبال کے خواب کی صحیح تعبیر بنیں۔