یہ آفیشل بیانیہ مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس یونین صدر سلمان امتیاز کی طرف سے ہے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کا ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اچانک جو یہ مطالبہ کیا جارہاہے کہ طلباء و طالبات اب اچانک یونیورسٹی کیمپس سے چلے جائیں یہ خطرے سے خالی نہیں ہے اور بچوں کو یوں اچانک واپس بھیجنے کا طریقہ غیر محفوظ ہے
مجھے بھی یہی بات سمجھ آتی ہے کہ جب لاک ڈاون شروع ہوا تھا تب تو یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت کی ایجوکیشن منسٹری نے مل کر بچوں کو کیمپس میں روکا اور یقین دہانی کرائی کہ جو طلباء و طالبات یونیورسٹی میں رہ گئے ہیں ان کی مکمل نگہداشت ہوگی اور انہیں سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی، یہ تب کہا گیا جب لاکڈاون کی ابتداء میں طلباء گھر جانے تیار تھے، لیکن بچوں کو یقین دہانی کراکے ٹھہرا لیاگیا، اس طرح سردست قریب 5 ہزار طلباء و طالبات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہیں
لیکن پچھلے دو چار دنوں میں مشکوک انداز میں ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ بچوں کو گھر جانے کہا جارہاہے اور یہ ایسے حالات میں کہا جارہاہے جبکہ ملک بھر میں کورونا وایرس سے صورتحال نازک ہے، دوسری طرح مسلم یونیورسٹی کے ساتھ ایک کونسپرسی یہ جڑ گئی ہیکہ باقاعدہ ضلع کی سرکاري ایڈمنسٹریشن نے اےایم یو کے میڈیکل کالج پر کرونا پھیلانے کا الزام تک عائد کردیا تھا
ایسے میں کیا گیارنٹی ہے کہ یہ جو طلباء جائیں گے ان کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہوگا؟ اس کے بعد جو بنیادی خطرہ اے ایم یو کی طلباء تنظیم کے سینئرز نے پیش کیا ہے وہ یہ کہ یونیورسٹی میں موجود طلباء و طالبات این ار سی اور ظالمانہ شہریت ترمیمی کالے قانون کےخلاف متحرک تھے اگر طلباء کو اب کیمپس سے باہر نکالا جاتاہے تو اس بنیاد پر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی اس کی کیا ضمانت ہے؟ جبکہ جامعہ ملیہ دہلی یونیورسٹی اور جے این یو کے طلباء پر کارروائیاں جاری ہی ہیں… اس کے علاوہ یہ بھی کہ، جو طلباء و طالبات ابھی کیمپس میں محفوظ ہیلی ان کو باہر نکال کر طویل سفر کراکے کیا کرونا کے خطرےمیں نہیں ڈالا جارہاہے؟ اگر خدانخواستہ بچوں کو درمیان سفر کچھ لاحق ہوگیا تو ان کی زندگیوں کی ضمانت کوئی پیشگی طورپر کیوں نہیں لیتا؟
کتنے ہی کیسز ایسے سامنے آچکے ہیں کہ ایک تندرست شخص کو مجبوراً کورنٹائن کیاگیا اور وہ سخت بیماری میں پڑگئے
خطرہ سامنے سے جو نظر آتاہے وہ یہ کہ سفر میں پولیس کی طرف سے کسی بھی کارروائی نا ہونے کی کوئی یقین دہانی نہیں ہے، اگر درمیان سفر یا گھر پہنچ جانے کے بعد کچھ ہوتاہے تو ایسی صورت میں کون ساتھ دےگا اس کی بھی ضمانت کوئی نہیں دے رہا سیدھے سیدھے یہ لگتاہے کہ تبلیغی جماعت کےبعد کہیں یہ ہوّا نا کھڑا کردیا جائے کہ مسلم یونیورسٹی کے ذریعے کرونا وائرس پھیلا
ان سب کے پیش نظر ہمارا یہی ماننا ہے کہ جیسے اب تک ایک مہینے سے زائد ہوگیا اور بچے کیمپس میں محفوظ ہیں، صورتحال کو ویسے ہی رہنے دیا جائے، براہ کرم ہزاروں طلباء. وطالبات اور ان کی فیمیلی کے ساتھ کھیل نہ کھیلیں، یہ وقت شیطانی تعصب سے مغلوب ہوکر سازشیں اور چالیں چلنے کا نہیں ہے. یہ ناگہانی آفت انتقامی کارروائیوں کے لیے اگر استعمال کی جائے تو بھلا ہم سے زیادہ بدترین انسان کون ہوگا؟
علیگ برادری، اے ایم یو ایڈمنسٹریشن، ذمہ دار اسٹوڈنٹس علیگڑھ کے سینئر پروفیسرز اور ٹیچرز ایسوسی ایشن پر یہ اخلاقی اور اصولی فریضہ ہے کہ وہ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس میں موجود ہزاروں طلباء و طالبات کو وہیں محفوظ طریقے سے رکھیں، اس نازک وقت میں ان کا خیال کیجیے، یہ چمنستان سرسید کی روایات ہیں، علیگ برادری کی اقدار ہیں، یہ ۵ ہزار بچے آپ حضرات کے پاس قوم و ملت اور ان کے والدین کی طرف سے امانت ہیں، براہ مہربانی انہیں کسی بھی غیر محفوظ ہاتھوں میں جانے نہ دیں، موجودہ حکومت اور اس کی پالیسیوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتاہے یہ آپ جیسے تعلیمیافتہ دانشوران زیادہ بہتر جانتےہیں _
سمیع اللّٰہ خان
۱ مئی ۲۰۲۰