سلمان خورشید
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس یونیورسٹی کا شمار دنیا کی بہترین یونیورسٹیز میں ہوتا ہے اور بلاشک و شبہ اس یونیورسٹی کو ہندوستان میں اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کا زینہ کہا جاسکتا ہے۔ کئی دہوں سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار کانگریس کی حکومت کے تسلسل باالفاظ دیگر کانگریسی حکومتوں اور مسلم رائے سازوں کے مابین تعلقات میں ایک اہم نقطہ کے طور پر سمجھا جاتا رہا ہے۔ آپ کو یاد دلادوں کہ 1968 ء میں سپریم کورٹ کے 5 ججس پر مشتمل ایک دستوری بنچ نے ایس عزیز پاشاہ اور اے این آر بمقابلہ یونین آف انڈیا مقدمہ میں کہا تھا کہ چونکہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ایک مرکزی یونیورسٹی ہے اس لئے اسے اقلیتی ادارہ نہیں مانا جاسکتا (لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ 1875 ء میں قائم کردہ اس باوقار تعلیمی ادارے کو اس وقت اقلیتی درجہ واپس مل گیا جب پارلیمنٹ نے 1981 ء میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (ترمیمی ایکٹ منظور کیا)۔ آئنی بنچ نے یہ کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دستور کی دفعہ 30(1) کے تحت اقلیتی ادارہ نہیں کہا جاسکتا چونکہ اسے قانون سازی کے ذریعہ قائم کیا گیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ جنوری 2006 ء میں الہ آباد ہائیکورٹ نے 1981 ء کے قانون کی اس شق کو رد کردیا جس میں اُس باوقار یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ دیا گیا تھا جس پر مرکز میں کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے حکومت نے الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ واضح رہے کہ بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے 2016 ء میں سپریم کورٹ کو آگاہ کیاکہ وہ سابقہ یو پی اے حکومت کی طرف سے دائر کی گئی اپیل کو واپس لے گی۔ اس نے 1967 ء کے ایس عزیز پاشاہ کیس میں عدالت عظمیٰ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک مرکزی یونیورسٹی ہے جسے حکومت کی جانب سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ نتیجہ کے طور پر 1951 ء اور 1965 ء کی ترامیم جو یونیورسٹی کے ڈھانچے کو دفعہ 14، 15 اور 16 کے عمومی دستوری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے کی گئی برقرار رکھا گیا اور ان کی توثیق کی گئی۔ ظاہر ہے کہ اُس وقت کی حکومت نے یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی مخالفت کی تھی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اسے دو سرکردہ اور نامور مسلم دانشوروں ایم سی چھاگلہ اور ایس نورالحسن جنھوں نے کانگریس حکومتوں میں خدمات انجام دیں برسر عام یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی دلیل سے گریز کیا حالانکہ 1981 ء میں کانگریس حکومت نے ایک اہم تبدیلی لانے والی ترمیم لائی جس نے ایس عزیز پاشاہ بمقابلہ یونین آف انڈیا مقدمہ میں پہنچے نفسیاتی نقصان کو دور کرنے کی کوشش کی۔ آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کانگریس کے حلقوں اور درحقیقت کانگریسی قیادت اور ان کے منتخب کردہ وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین کے درمیان اس مسئلہ کے حوالے سے نرم باہمی تناؤ کے بارے میں لارنس گوٹیر نے اپنی حالیہ تصنیف Between Nation and Community (2024) میں قابل تعریف طور پر دکھایا یا پیش کیا ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ رام جنم بھومی بابری مسجد مہم کے دوران عوام کی توجہ عارضی طور پر اس مسئلہ سے ہٹ گئی لیکن یہ مسئلہ زندہ رہا اور پھر سال 2005 ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مسلم طلبہ کے 50 فیصد تحفظات کو الہ آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ 1981 ء میں کی گئی ترمیم کی مدد سے یونیورسٹی نے ریزرویشن پالیسی کی مدافعت کرنے کی کوشش کی لیکن عدالت نے سید عزیز پاشاہ کیس کی نظیر کو اپناتے ہوئے اس کی روشنی میں ان کوششوں کو مسترد کردیا۔ فطری طور پر سپریم کورٹ سے اپیلیں کی گئی لیکن اس دوران عزیز پاشاہ کیس میں غلطی کے ازالہ یا درستگی کو سات رکنی دستوری بنچ کے حوالہ کردیا گیا۔ جب یہ معاملہ سماعت کے لئے آیا تو دستوری بنچ نے اس حوالہ یا ریفرنس پر غور کیا اور اپیلوں کی باقاعدہ بنچ کے ذریعہ بعد میں سماعت کے لئے مسترد کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بمقابلہ ڈاکٹر نریش اگروال (2024) مقدمہ میں سپریم کورٹ کے 4:3 بنچ فیصلہ نے 5 ججس کے متفقہ فیصلہ کو اُلٹ دیا لیکن یہ آئینی عدالت کے طریقہ کار کی منطق ہے جیسا کہ آج کا موقف ہے۔ سپریم کورٹ کے 8 ججس نے فیصلہ دیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور 4 ججس نے یہ کہاکہ دفعہ 30 کے تحت یونیورسٹی کو اقلیتی ہونے کا جو موقف / تحفظ حاصل ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صرف اس کے اُس قانونی موقف کے نتیجہ میں ہے جو یونیورسٹی کو پارلیمنٹ میں منظورہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ 1920 کے تحت حاصل ہے۔ اس قانون کو Imperial Government نے منظور کروایا تھا۔ (باقی آئندہ)