علی گرھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ ہے: سپریم کورٹ

,

   

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی تعلیمی ادارے کا اقلیتی درجہ اس لیے ختم نہیں ہوگا کہ پارلیمنٹ نے اس ادارے کو کنٹرول کرنے یا اس کی نگرانی کے لیے کوئی قانون بنایا ہے یا یہ ادارہ غیر اقلیتی افراد کے ذریعہ چلایا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے جمعہ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی درجہ پر فیصلہ سناتے ہوئے اسے برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ سمیت 7 ججوں کی بنچ نے اس کیس کا فیصلہ 4-3 کے اکثریتی دووٹ سے سنایا۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں قائم آئینی بنچ میں جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریا کانت، جسٹس جے بی پاردی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چندر شرما شامل ہیں جس نے 1968ء کے ایس عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس میں کہا گیا تھا کہ پارلیمانی قانون کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی درجہ ختم ہوچکا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایس عزیز باشا کیس کا یہ نظریہ کہ قانون نافذ ہونے سے اقلیتی حیثیت ختم ہوجاتی ہے، اب یہ (آج کے) کے فیصلے کے مطابق طے کیا جائے گا کہ آیا اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں۔ عدالت نے کہا کہ کسی ادارے کی اقلیتی حیثیت طے کرنے کے لیے دیکھنا ہوگا کہ اسے کس نے قائم کیا۔ عدالت نے وضاحت کی کہ عدالت کو ادارے کے قیام کی اصل بنیاد پر غور کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ اس کے قیام کے پیچھے کس کا ذہن تھا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ زمین کے لیے فنڈز کہاں سے اائے اور کیا اقلیتی برادری نے تعاون کیا۔ اس کے علاوہ اگر ادارہ غیر اقلیتی افراد کے زیر انتظام بھی ہو، تو اس کی اقلیتی حیثیت ختم نہیں ہوگی۔