علی گڑھ اور بریلی میں مجوزہ’دھرم سنسد‘ کیخلاف احتجاج

   

مقامی انتظامیہ سے پابندی عائد کرنے مختلف تنظیموں کا مطالبہ
نئی دہلی : ’سناتن ہندو سیوا سنستھان‘ کی طرف سے علی گڑھ میں 22 اور 23 جنوری کو دھرم سنسد کا انعقاد رام لیلا میدان میں کیا جا رہا ہے، لیکن اب اس کے خلاف آوازیں بھی اٹھنی شروع ہو گئی ہیں۔ہریدوار کے طرز پر اتر پردیش کے کئی اضلاع میں دھرم سنسد منعقد کیے جانے کی خبروں کے درمیان اب اس کے خلاف آواز بھی اٹھ رہی ہے۔ اتر پردیش کے علی گڑھ اور بریلی میں مجوزہ دھرم سنسد کے خلاف مہم شروع کر دی گئی ہے۔ علی گڑھ میں کانگریس لیڈر اور اے ایم یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر سلمان امتیاز نے یہ پیش قدمی کی ہے تو بریلی میں سابق وزیر توقیر رضا نے جمعہ کی نماز کے بعد بڑے عوامی جلسہ میں یہ اعلان کیا ہے۔واضح رہے کہ اتراکھنڈ میں ہندو دھرم سنسد ہونے کے بعد علی گڑھ میں بھی 22 اور 23 جنوری کو ہندو دھرم سنسد مجوزہ ہیں۔ علی گڑھ میں دھرم سنسد سے پہلے اس پر روک لگانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق اسٹوڈنٹ یونین صدر سلمان امتیاز نے ضلع انتظامیہ سے دھرم سنسد پر روک لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعرات کو دھرم سنسد پر روک لگانے کے مطالبہ کو لے کر ضلع مجسٹریٹ کو عرضداشت دینے جا رہے سلمان امتیاز کو گھر پر نظربند کر دیا گیا۔ اس سے قبل آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین نے علی گڑھ میں مجوزہ دھرم سنسد کی مخالفت میں ضلع مجسٹریٹ کو عرضداشت پیش کی تھی۔ بریلی میں بھی اسی طرح کے انعقاد کی خبر گرم ہے۔ سلمان امتیاز کا کہنا ہے کہ دراصل یہ سنسد کسی خاص مذہب کا سہارا لے کر دوسرے کو بدنام کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ دھرم سنسد سماج میں نفرت پھیلانے کا کام کر رہا ہے نہ کہ کسی مذہب کو پھیلانے کی بات کر رہا ہے۔ سلمان امتیاز کا مزید کہنا ہے کہ اگر کوئی مسلم شخص کچھ کہہ دے تو 24 گھنٹے کے اندر یو اے پی اے اور ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کر گرفتار کر لیا جاتا ہے، لیکن ہریدوار میں دھرم سنسد کے نام پر ’آتنکی سنسد‘ کر مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی بات کرنے والے لوگ کھلے عام سڑکوں پر بغیر کسی مقدمے کے گھوم رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ دھرم سنسد کی مخالفت کریں گے اور اسے نہیں ہونے دیں گے۔ اگر دھرم سنسد کو نہ روکا گیا تو اس کے خلاف بالکل اسی طریقے سے علی گڑھ میں ’نیائے سنسد‘ کا انعقاد کریں گے جس میں سبھی مذاہب کے لوگوں کو شامل کیا جائے گا۔