عمارتوں کے انہدام پر مقامی مسلم جماعت خاموش کیوں ؟

   

تہذیبی اور ثقافتی ورثہ خطرہ میں، کے سی آر ملک کے دیگر علاقوں سے سبق لیں
حیدرآباد ۔ یکم جولائی (سیاست نیوز) دنیا بھر میں کوئی بھی حکومت ملک کے تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کے تحفظ پر فخر محسوس کرتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں سینکڑوں سال پرانی یادگاروں کو محفوظ رکھا گیا اور ان کے تحفظ پر بھاری رقومات خرچ کی جاتی ہیں۔ مصر میں آج بھی ہزاروں سال پرانی یادگاروں کو سیاحتی مرکز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ہندوستان میں کئی ریاستوں میں تاریخی عمارتوں کے تحفظ پر توجہ دی جارہی ہے اور آرکیالوجیکل ڈیولپمنٹ آف انڈیا قدیم عمارتوں کی تزئین نو میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ متحدہ آندھراپردیش میں جو پارٹی بھی اقتدار میں رہی ، اس نے تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کو برقرار رکھا بلکہ تلگو دیشم دور حکومت میں تلگو تہذیب کی یادگاروں کا احیاء عمل میں لایا گیا ۔ تلنگانہ ریاست کے قیام کے بعد کے سی آر حکومت سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ نظام حیدرآباد کی یادگاروں کے تحفظ پر توجہ دیں گے کیونکہ وہ ہمیشہ خودکو نظام حیدرآباد کا کٹر مداح ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ عوام کی توقعات پر پورا اترنے کے بجائے کے سی آر حکومت نے نظام کی نشانیوں کو یکے بعد دیگرے مٹانے کا منصوبہ تیار کرلیا۔ نظام کا قائم کردہ شفاء خانہ یونانی چارمینار حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے اور اس کی عمارت دن بہ دن مخدوش ہورہی ہے ۔ چیف منسٹر کو اس تاریخی اور خوبصورت عمارت کے تحفظ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ یونانی طریقہ علاج کو حکومت شائد برقرار رکھنا نہیں چاہتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج شفاء خانہ یونانی کسمپرسی کا شکار ہے۔ دوسرا نشانہ عثمانیہ ہاسپٹل کو بنایا گیا جس کی خوبصورت عمارت آج بھی ملک بھر میں تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے سلسلہ میں سرگرم تنظیموں اور مورخین کی چوکسی کے نتیجہ میں حکومت کو عثمانیہ ہاسپٹل کی عمارت کے انہدام کے فیصلے کو ٹالنا پڑا۔ تازہ ترین فیصلہ میں حکومت نے ارم منزل اور سکریٹریٹ کی موجودہ عمارتوں کو منہدم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہاں اسمبلی کی نئی عمارت تعمیر کی جاسکے اور سکریٹریٹ کی موجودہ اراضی پر نیا کامپلکس تعمیر ہو۔ آصف جاہی حکمرانوں کے ورثاء کی جانب سے انہدام کی مخالفت کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ گزشتہ دنوں ہندوستان کے موقر روزنامہ بزنس اسٹینڈرڈ نے رپورٹ شائع کی جس نے کولکتہ ، اوٹی ، گوا اور دیگر تفریحی مقامات پر انگریزوں کی یادگاروں کے تحفظ پر کروڑہا روپئے خرچ کرنے کا انکشاف کیا گیا ۔ کولکتہ کے ججس کورٹ روڈ پر انگریزوں کے دور میں تعمیر کردہ عمارت کو 105 کروڑ روپئے کے خرچ سے بحال کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس عمارت کے اطراف باغات موجود ہیں۔ یہ قدیم عمارت تزئین نو کے بعد کولکتہ کی شان اور عظمت میں اضافہ کا سبب بن چکی ہے۔ اسی طرح اوٹی ، گوا میں برٹش دور کے کاٹیجس اور حویلیوں کا تحفظ کرتے ہوئے انہیں نئی عمارتوں کی طرح خوبصورت بنایا گیا۔ حیدرآباد میں عوام تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے حق میں ہے لیکن حکومت اپنی ضد پر قائم ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نظام کی جھوٹی تعریف کرنے والے کے سی آر نظام کی یادگاروں کو یکے بعد دیگرے مٹانا چاہتے ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ حکومت کی حلیف جماعت اس حساس اور اہم مسئلہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ حلیف مسلم جماعت کو اپنے اجداد کی یادگاروں پر فخر ہونا چاہئے اور سب سے پہلے انہیں انہدام کی مخالفت کرنی چاہئے تھی لیکن سیاسی مصلحتوں کے تحت خاموشی اختیار کرلی گئی۔ شہر کے عوام سوال کر رہے ہیں کہ آخر حکومت کی حلیف مسلم جماعت کو مسلم حکمرانوں کی یادگاروں سے دلچسپی کیوں نہیں ہے؟ سیاسی فائدہ کیلئے مسلم حکمرانوں کی یادگاروں اور حیدرآباد کے تاریخی و تہذیبی ورثہ کے تحفظ کو نظر انداز کرنا افسوسناک ہے۔