عمر خالد، فاطمہ اور شرجیل کی ضمانت کیلئے اپیل

   

نئی دہلی :/31 اکٹوبر (ایجنسیز) فروری 2020 کے دہلی فسادات سے متعلق یو اے پی اے کیس میں عمر خالد نے جمعہ کو سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران کہا کہ انکے خلاف کوئی براہِ راست ثبوت نہیں ہے، اور تشدد میں اس کا کوئی کردار ثابت نہیں ہوا۔عمر خالد کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2020 کے دہلی فسادات سے منسلک نہ تو کوئی رقم، نہ کوئی ہتھیار، اور نہ ہی کوئی جسمانی ثبوت عمر خالد کے خلاف ملا ہے۔کپل سبل نے عدالت کو بتایاکہ751 ایف آئی آرز درج ہیں، مگر ان میں سے صرف ایک میں میرے موکل کا نام شامل ہے۔ اگر یہ واقعی کوئی بڑی سازش تھی تو پھر باقی 750 کیسز میں اس کا نام کیوں نہیں آیا؟ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر عمر خالد واقعی فسادات بھڑکانے کی سازش میں شریک ہوتے تو ان دنوں دہلی میں ان کی موجودگی ثابت ہوتی، لیکن ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ وہ ان تاریخوں میں شہر سے باہر تھے۔کپل سبل نے کہا کہ دہلی ہائی کورٹ نے 17 فروری 2020 کو امراوتی میں عمر خالد کی تقریر کو اشتعال انگیز قرار دیا تھا۔
تاہم، انہوں نے وضاحت کی کہ وہ تقریر یوٹیوب پر موجود ہے، جس میں خالد نے صرف گاندھیائی اصولوں، امن اور عدم تشدد پر زور دیا تھا۔ گلفشاں فاطمہ کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک سنگھوی پیش ہوئے۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میری موکلہ اپریل 2020 سے جیل میں ہے ۔یعنی پانچ سال اور پانچ ماہ گزر چکے ہیں، لیکن ضمانت کی سماعت ابھی تک مکمل نہیں ہوئی۔سنگھوی نے کہا کہ مرکزی چارج شیٹ 16 ستمبر 2020 کو داخل کی گئی تھی، مگر استغاثہ نے ہر سال ایک نئی ضمنی چارج شیٹ داخل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، جس سے مقدمے کو بلاوجہ طول دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ فاطمہ کی ضمانت کی درخواست پر اب تک 90 سماعتیں ہو چکی ہیں، لیکن حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔شرجیل امام کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل سدھارتھ دیو نے کہا کہ پولیس نے تحقیقات مکمل کرنے میں تین سال لگا دیے، حالانکہ ان کی تمام تقاریر فسادات سے دو ماہ قبل کی گئی تھیں۔انہوں نے کہا،’’کوئی براہِ راست یا بالواسطہ ثبوت نہیں ہے کہ شرجیل امام نے تشدد پر اکسایا ہو یا کسی سازش کا حصہ ہو۔دہلی پولیس نے ملزمان کی ضمانت کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پرامن احتجاج کے پردے میں حکومت گرانے کی مہم چلا کر ملک کی خودمختاری اور سالمیت پر حملہ کرنے کی سازش کی تھی۔پولیس کے مطابق، خالد، فاطمہ، شرجیل امام اور میران حیدر کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) اور تعزیراتِ ہند کے تحت مقدمات درج ہیں۔ یاد رہے کہ فروری 2020 کے دہلی فسادات میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ یہ پرتشدد واقعات شہریت (ترمیمی) قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے خلاف مظاہروں کے دوران پیش آئے تھے۔سماعت آج بے نتیجہ رہی اور معاملے کی سماعت 3 نومبر کو دوبارہ ہوگی۔