چیف جسٹس تلنگانہ ہائی کورٹ کا موقف، سنگل جج کے احکامات کالعدم
حیدرآباد۔ 14 ڈسمبر (سیاست نیوز) تلنگانہ ہائی کورٹ نے واضح کردیا کہ حکومت کے پاس عوامی اغراض اور خاص طور پر تعلیمی سرگرمیوں کے سلسلہ میں موجود اراضی کو خانگی افراد کے حق میں منتقل یا واپس نہیں کیا جاسکتا۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ اراضی کی واپسی چاہے وہ حقیقی طور پر عطیہ دینے والوں کو کیوں نہ ہو ناقابل قبول ہے۔ حکومت کی جانب سے اس طرح کا کوئی بھی فیصلہ دستور کی دفعات 14 ، 21 اور 21A کی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس اپریشن کمار سنگھ اور جسٹس جی ایم محی الدین پر مشتمل بنچ نے مفاد عامہ کی ایک درخواست کی یکسوئی کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا۔ ایک ریٹائرڈ ڈاکٹر لکشمی نرسمہا ریڈی کے علاوہ ریاستی حکومت کی جانب سے دائر کردہ رٹ اپیل کی یکسوئی کی گئی۔ دونوں درخواستوں میں نومبر 2024 کو سنگل جج کی جانب سے دیئے گئے فیصلے کو چیالنج کیا گیا جس میں ریونیو ڈپارٹمنٹ کے بھونگیر ضلع کے مکتور گاؤں میں 4 ایکر اراضی حقیقی عطیہ دہندگان کو واپس کرنے کی ہدایت دی گئی۔ چیف جسٹس نے سنگل جج کے احکامات کو کالعدم کردیا اور حکام کو ہدایت دی کہ اراضی کو خانگی افراد کے حق میں منتقل کرنے کی کسی بھی کارروائی کو فوری طور پر روک دیں۔ چیف سکریٹری، پرنسپل سکریٹری ریونیو، کمشنر مکتور میونپسلٹی اور ضلع کلکٹر بھونگیر کو ہدایت دی گئی کہ اراضی کا تحفظ کریں اور کسی بھی غیر مجاز قبضہ یا تعمیر کی اجازت نہ دی جائے۔ عدالت نے واضح کیا کہ عوامی مفادات اور خاص طور پر کستوربا گاندھی بالیکاودیالیہ کی توسیع، اسکول عمارتوں کی تعمیر، ہاسٹلس اور پلے گراؤنڈس کے لئے دی گئی اراضی کو منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ اراضی کے عطیہ دہندگان نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 2005 میں 6 ایکر اراضی ڈسٹرکٹ اسپورٹس اتھاریٹی کو منی اسپورٹس اسٹیڈیم کی تعمیر کے لئے بطور عطیہ پیش کی تھی لیکن منی اسٹیڈیم تعمیر نہیں کیا گیا۔ 2 ایکر اراضی کستوربا گاندھی بالیکا ودیالیہ کی عمارت کے لئے استعمال کی جارہی ہے۔ انہوں نے باقی 4 ایکر اراضی کی واپسی کی درخواست کی۔ چیف جسٹس کی زیر قیادت بنچ نے درخواست کو مسترد کردیا اور واضح کیا کہ عوامی مفادات کے لئے ایک بار عطیہ کی گئی اراضی کو کسی بھی صورت میں دوبارہ منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ 1
