روش کمار
کسانوں کی لڑائی شاہین باغ کی طرح ہوگئی ہے وہاں صرف گھیراؤ ہے اس کے بعد کچھ نہیں۔ حکومت کو شاہین باغ احتجاجی مظاہرے کی طرح کسانوں کے مظاہرے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے ہندوؤں اور مسلمانوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کا کام کیا گیا اور حیرت اس بات پر ہے کہ بیروزگاری بڑھنے کے باوجود بھی کوئی اس اہم ترین و سلگتے مسئلہ پر توجہ دینے کے لئے تیار نہیں یا پھر عوام کی توجہ جان بوجھ کر اصل مسائل سے ہٹائی جارہی ہے۔ دوسری طرف حکومت نے کسان تحریک کے خلاف شدید ترین پروپگنڈہ شروع کیا ہے۔ حکومت نے جو زرعی قوانین بنائے ہیں اور انہیں پارلیمنٹ میں بھی منظور کیا گیا اس کی شدت کے ساتھ مدافعت کررہی ہے۔ حالانکہ ملک کے کسان ان زرعی قوانین کو سیاہ قوانین قرار دے کر احتجاج میں مصروف ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کسان کانفرنسوں اور پریس کانفرنسوں کا سہارا لے کر ان قوانین کی تشہیر کررہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت جلد کسان تحریک کے خلاف سیکوریٹی دائرہ تنگ سے تنگ کردیا جائے گا اور اس کے لئے حکومت چین اور پاکستان کا نام لے سکتی ہے اور اس بہانے سے احتجاجی کسانوں کو گھیرا جائے گا ان کا محاصرہ کیا جائے گا۔
دوسری طرف سردی اپنے عروج پر ہے۔ ایک طرف سردی اور دوسری طرف پروپگنڈہ ہے جو حکومت کررہی ہے۔ اسی دوران کسان مورچہ نے حکومت کی پروپگنڈہ جنگ کا سامنا کرنے کی تیاری کرنی ہے اس کے قائدین کہتے ہیں کہ ہم اس پروپگنڈہ جنگ کا سامنا کرنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ اس سلسلہ میں کسان مورچہ نے ٹوئٹر پر ایک اکاؤنٹ کھولتے ہوئے یہ اعلان کیا۔ کسان مورچہ کا ٹوئٹر ہینڈل کچھ اس طرح ہے
@kisanektamorcha۔
فیس بک پر ان کسانوں نے ایک صفحہ کی تخلیق بھی کی ہے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بی جے پی کے آئی ٹی سیل سے لڑنا یا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ ان تمام مرحلوں میں گودی میڈیا ایک ایسے دیوار کی طرح کھڑا ہے جس کے سامنے عوام ٹہرنے کے قابل نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ گودی میڈیا دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے اور جھوٹ کا سہارا لے کر لوگوں کو گمراہ کررہا ہے۔ آپ چاہے لاکھ احتجاج کرلیں، لوگ کثیر تعداد میں جمع ہو جائیں گودی میڈیا اور حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں۔ اکثر میں نے اس بارے میں لکھا ہے کہ گودی میڈیا عوام کے حقیقی مطالبات کو کس طرح نظرانداز کرتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کسان اپنے داخلی ڈیویژن سے لڑائی لڑرہے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ بی جے پی کے آئی ٹی سیل یا اس کی جانب سے کئے جانے والے پروپگنڈہ سے مقابلہ کے لئے کسی بھی طبقہ میں دانشوارانہ قوت پائی جاتی ہو۔ عوام کے اس طبقہ کو بی جے پی آئی ٹی سیل اور گودی میڈیا دونوں سے مقابلہ درپیش ہے۔ عوام اپنی تشہیر سے محروم ہوچکے ہیں۔کسانوں کے نیت و ارادوں کو دیکھتے ہوئے قدرت سے یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ وہ ٹھنڈ کے قہر کو کم کرے ویسے بھی حکومت کے لئے کسانوں کا احتجاج ایک قہر ہی تو ہے۔
کسان شدید سردی میں ایک ماہ سے زائد عرصہ سے احتجاج کررہے ہیں لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام تماشائی بنے ہوئے ہیں اور یہی محسوس ہوتا ہے کہ جمہوریت کا ضابطہ اخلاق ہندوستانی عوام کی تائید و حمایت سے منسوخ کردیا گیا ہے۔ اگر کوئی مخالفت کرتا ہے تو اسے غدار یا پھر مسلمان قرار دیا جاتا ہے۔ مخالفین کو یہی کہا جارہا ہے کہ مسلمان ہے کسی کو بھی مسلمان بنا دیا جارہا ہے اس کا مطلب یہ ہیکہ مسئلہ ایک جیسا ہی ہے جو کوئی مخالف روش اختیار کررہا ہے اسے مسلمان بنا دیا جائے گا۔ کسانوں کو دہشت گرد اور پاکستانی قرار دیا گیا ہے۔ یہی چال مسلمانوں کے ساتھ چلی گئی تھی اب کسانوں میں بھی پھوٹ ڈالو کی پالیسی پر عمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عوام کی خاموشی کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی عوام کو اپنی اجتماعی موت کی خصوصی پارٹی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ہماری روایت کے مطابق زندہ رہتے ہوئے بھی لوگ شردھا کا اہتمام کررہے ہیں۔ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہ ماضی کے دور کے لوگوں کے باقیات ہیں۔ لوگوں کی اجتماعی موت ایک امکان ہے۔ لوگ بڑی خوشی سے حالات سے سمجھوتہ کررہے ہیں۔ ان حالات میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ بنا لوگوں یا عوام کے جمہوریت کا خیرمقدم ہے۔ حالات تو یہی دکھائی دے رہے ہیں کہ حکومت اب فصل کے بیج اور کسانوں کو بھی فیکٹری میں بنا سکتی ہے۔ حکومت کو کوئی پرواہ نہیں۔ میں جو کچھ بھی لکھ رہا ہوں وہ ایک سچائی ہے۔