دستاویزات کی تیاری میں عوام کی در بہ در ٹھوکریں ، می سیوا سنٹرس پر عوام کا ہجوم
جی ایچ ایم سی کے ساتھ درمیانی افراد کی آمدنی میں غیر معمولی اضافہ ، معصوم شہری استحصال کا شکار
حیدرآباد۔7فروری(سیاست نیوز) ریاست میں این پی آر کے خوف میں مبتلاء عوام اپنے دستاویزات کی تیاری کے لئے ابھی سے در بہ در کی ٹھوکریں کھانے لگے ہیں اور مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کی آمدنی کے ساتھ درمیانی افراد کی آمدنی میں بھی زبردست اضافہ ریکارڈ کیا جانے لگا ہے کیونکہ شہر حیدرآباد میں پیدا شدہ حالات کو دیکھتے ہوئے خوفزدہ افراد صداقتنامۂ پیدائش بنانے کیلئے ہزاروں روپئے ادا کرنے لگے ہیں اور کئی می سیوا مراکز پر جہاں فی الحال سہولت موجود ہے ان میں درخواستیں داخل کرنے کے علاوہ سیٹیزن سنٹر پر طویل قطاریں دیکھی جا نے لگی ہیں جبکہ شہریو ںپر یہ واضح کیا جا رہاہے کہ این پی آر میں حصہ لینے کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اس کے باوجود بھی شہری احتیاطی طور پر اپنے دستاویزات کو درست کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آرہے ہیں۔مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ شہر حیدرآباد میں کئی سیٹیزن سنٹرس پر صداقتنامہ ٔپیدائش کے حصول کیلئے درخواستیں وصول ہورہی ہیں اور ان درخواستوں کی یکسوئی کیلئے کوشش کی جا رہی ہے ۔سی اے اے ‘ این آر سی اور این پی آر میں حصہ نہ لینے کا لاکھوں افراد کی جانب سے عہد کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب دستاویزات کو درست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ شہر حیدرآباد کے عوام میں پائے جانے والے خوف کا اظہار کرتا ہے۔چند ماہ قبل شہر حیدرآباد میں آدھار کارڈ پر نام اور پتوں کی درستگی کے سلسلہ میںمہم چلائی گئی ہے اور کہا جا رہاہے کہ اس مہم میں بھی لاکھوں کی تعداد میں عوام نے حصہ لیا اور سی اے اے اور این آرسی کے امکانی خوف سے آدھار کو درست کروایا لیکن اب جبکہ نئے شرائط و سوالات کے ساتھ این پی آر کروانے کی بات کی جا رہی ہے تو عوام کی بڑی تعدادشہر حیدرآباد میں مجاز ادارہ سے صداقتنامہ پیدائش حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اور خوف میں مبتلاء ان شہریوں کا درمیانی آدمی استحصال کر رہے ہیں اور شہریوں کو ٹھگا جانے لگا ہے کیونکہ قدیم صداقتنامہ ٔ پیدائش کے لئے درمیانی افراد ہزاروں روپئے طلب کر رہے ہیں علاوہ ازیں کئی لوگ اپنے اور اپنے بچوں کے صداقتنامۂ پیدائش میں ناموں اور تاریخ پیدائش کو درست کروانے کیلئے دفاتر کے چکر کاٹ رہے ہیں جبکہ اگر وہ اس بات کا فیصلہ کرلیں کہ وہ این پی آر میں حصہ ہی نہیں لیں گے تو انہیں کوئی دستاویزات تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان دستاویزات کی تیاری میں ہزاروں روپئے کے خرچ کے باوجود اگر خامی پائی جاتی ہے تو انہیں حکومت کی جانب سے شکار بنایا جاسکتا ہے اور ایسے لوگ آسان شکار بنیں گے جو ین پی آر میں حصہ لیتے ہوئے اپنی اور اپنے خاندان کی مکمل تفصیلات فراہم کریں گے کیونکہ جن لوگوں کی تفصیلات این پی آر میں حاصل کی جائیں گی ان سے کوئی دستاویزات اس وقت طلب نہیں کئے جائیں گے ۔