روش کمار
آج کل یہ سوال بہت زیادہ گردش کررہا ہے کہ آج کا ہندوستانی کام کررہا ہے یا وقت گذاری کررہا ہے۔ اس سوال کا جواب اس بات سے مل جائے گا کہ ہم کن چیزوں کو لیکر بات کررہے ہیں اور کن چیزوں کو لیکر بات نہیں کررہے ہیں یا بہت کم بات کررہے ہیں۔ شیئر بازار کی چمک دکھا کر دھوکہ دیا جارہا تھا کہ ہندوستان کی معاشی حالت بہتر ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے لیکن اب وہاں بھی گراوٹ کی آندھی چل رہی ہے۔ صرف اکٹوبر 2024 میں 94 ہزار کروڑ روپئے ( تقریباً 11.2ارب ڈالرس ) کی کثیر رقم نکال لی۔ یعنی اس قدر زیادہ رقم بیرونی سرمایہ کاروں نے نکال لی ہے۔ ستمبر کے ماہ میں چین میں ہندوستان کی بہ نسبت 14 گنا پیسہ بیرونی سرمایہ کاروں نے لگایا۔ نومبر میں ساڑھے چھبیس ہزار کروڑ روپئے ہندوستان کے بازار سے ایف پی آئی نے نکال لی۔ ڈسمبر اور جنوری میں تھوڑی بہتری آئی مگر تیزی سے اضافہ نہیں ہوا، اسی شیئر بازار کے بھروسہ ہندوستان کا متوسط طبقہ معاشی ترقی کے وعدوں پر بھروسہ کررہا تھا لیکن اب وہاں بھی جشن کا موڈ ٹھنڈا پڑتا جارہا ہے جس طرح شیئر بازار میں اولے پڑے ہیں اس سے لگتا ہے کہ شیئر مارکٹ کے بھروسہ ٹائم پاس کرنے والوں کو اَب راتوں کو بھی جاگنا پڑے گا، ایسا نہ ہو کہ انہیں صبح سے گھبراہٹ ہونے لگ جائے۔6 جنوری کو NEFTY دس فیصد تک گرگیا، ایک دن میں 2600 پوائنٹس۔ 27 ستمبر سے لیکر 3 جنوری تک مارکٹ کیاپ قریب 28 لاکھ کروڑ روپئے گھٹ گیا۔ آج کی گراوٹ کو جوڑ لیں تو یہ رقم تقریباً 32 سے 35 لاکھ کروڑ ہوجاتی ہے۔
5 ماہ سے ہندوستان کا بازار کانپ رہا ہے اور ہم Meme بنانے میں مصروف ہیں کہ ٹرمپ‘ مودی کو منظور کریں گے یا نہیں ؟ وزیر خارجہ جے شنکر امریکہ گئے ہیں۔ یہی ہے ٹائم پاس، ٹائم پاس کے موضوع کو لیکر صحافی این ڈی مکھرجی نے بلومبرگ میں چین کے نوجوانوں کے پڑے رہو کے چلن سے تقابل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہندوستانی نوجوان ٹائم پاس کررہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کام نہیں ہے ان کا ٹائم نہیں کٹ رہا ہے جبکہ چین کا نوجوان طبقہ کام کرتے کرتے کام سے تنگ آچکا ہے تو کم آمدنی کام چُن لینا بہتر سمجھ رہا ہے تاکہ آرام کرسکے اور پڑا بھی رہے۔ اگر دیکھا جائے تو ٹائم تو ہندوستان کا بھی پاس نہیں ہورہا ہے اس لئے ہر دن طرح طرح کے اُلٹے سیدھے بیانات پر گھمسان مباحث کا شہ نشین سجایا جارہا ہے تاکہ آپ کا اور سب کا ٹائم پاس ہوسکے اور ضروری مسئلوں پر کم بات ہو۔ جیسے پرنیکا چترویدی نے ’ انڈیا ٹوڈے‘ کی ایک رپورٹ ٹوئیٹ کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ لاڈلی بہن اسکیم سے 20 لاکھ خواتین کے نام حذف کئے جاسکتے ہیں۔ پرنیکا چترویدی نے اس خبر پر لکھا ہے کہ ’’ او کے بہنو ووٹ دو اور دھوکہ لو ‘‘ انگریزی کے موقر روز نامہ ’ دِی ہندو‘ کی نومبر کی خبر ہے ’’مہنگائی سے نچوڑی جارہے متوسط طبقہ نے اپنی کمر کس لی ہے‘‘۔ اور ’ امر اُجالہ ‘ کی ستمبر کی رپورٹ کی سُرخی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’ریزرو بینک آف انڈیا کے مطابق خاندانوں کی گھریلو بچت گھٹ کر 50 سال میں سب سے کم ہوچکی ہے‘‘۔
منی کنٹرول نے ایک خبر شائع کی ہے کہ ایف پی آئی نے جنوری کے تین دنوں میں شیئر بازار سے 4285 کروڑ روپئے نکال لئے۔ نومبر 2024 میں ’امر اُجالہ ‘ نے اعداد و شمار کے ساتھ رپورٹ کی ہے اور سُرخی میں لکھا ہے کہ ’’ ہائے رے مہنگائی ‘اناج تیل ‘ سبزی سب مہنگے، کھانا پینا مشکل، نجات کیلئے اپنا خرچہ کم کرنے پر مجبور ہوگیا ہے عام آدمی ‘‘۔ اپریل 2024 کی خبر ہے کہ ہندوستانی خاندانوں کی گھریلو بچت کیوں گھٹ رہی ہے اور ان پر قرض کیوں بڑھ رہا ہے۔ بی بی سی کی شونک بسواس کی رپورٹ ہے۔ تو کیا آپ لوگ ٹائم پاس کررہے ہیں‘ کام نہیں مل رہا ہے اور جسے مِلا بھی ہے وہ بھی ٹائم پاس کرنے میں مصروف ہے کہ ایک دو سال کم تنخواہ پر کام کرلیتے ہیں کیا پتہ آگے چل کر اچھی تنخواہ کا کام مل جائے گا، ایسا بہت کم لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو آگے جاکر زیادہ تنخواہ والی نوکری ملتی ہے۔ زیادہ تر لوگ زندگی بھر کم تنخواہ پر کام کرتے رہ جاتے ہیں۔ ہندوستان کی معاشی حالت بنیادی شکل ہے کم تنخواہ پر کم مزدوری پر چلنے والی معاشی حالت ہے، سب کچھ شاندار لگے اس لئے ہزاروں کروڑ روپئے پھونک کر اشتہارات میں ہندوستان کو چمکایا جارہا ہے۔ اب کمبھ کے موقع پر ہی آپ چاروں طرف نصب کردہ یا لگائے گئے اشتہارات دیکھ لیجئے۔ کم سے کم ایک سوال اپنے لئے تو کیجئے کہ اننت کال سے ہندوستانی لوگ کمبھ میلے میں جاتے رہے کیا تب کمبھ کو لیکر اس طرح کا استعمال کیا گیا ؟ مہا کمبھ ، دیو کمبھ کے نام سے دہلی کے بس اسٹانڈ اور ڈھیر ساری جگہوں پر کمبھ کے اشتہارات لگے ہوئے ہیں۔ سوال کیجئے کہ اس قدر زیادہ پیسہ کمبھ میلے کے اشتہارات پر خرچ کیوں کئے جارہے ہیں؟ جس میں لوگ تب بھی جائیں گے جب وہاں جانے کا راستہ تک نہیں ہوگا۔ اگر دہلی میں اتنے اشتہارات لگائے جارہے ہیں، لوگوں کو بھیجنا ہی مقصد ہے تو ایک کام اور کیجئے سب ہی دفاتر کو 5 دن کیلئے بند کردیجئے ۔ کارپوریٹ کمپنیوں سے بھی کہیئے کہ آپ بھی 5 دن تک کاروبار بند رکھیں تاکہ سب ہی لوگ کمبھ میلے میں جاکر نہانے کا موقع حاصل کریں اور گناہوں سے آزادی پائیں۔
سوال یہی نہیں ہے کہ اسکولوں میں بیت الخلاء نہیں ہیں‘ یہ بھی سوال ہے کہ وہاں تعلیمی معیار کتنا خراب ہے۔ ایسے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیمی معیار اچھا نہیں ہے لیکن جن اسکولوں میں غریبوں کے بچے پڑھتے ہیں ان میں بہتری کی یہ حالت کیوں ہے اور اس پر بات کیوں نہیں ہوتی، اور جب بات ہوتی ہے تو آپ کو اس میں مزہ کیوں نہیں آتا۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ اس کا اثر آپ کی ہی جیب پر پڑتا ہے۔ جب آپ بچے کو ٹیوشن سے لیکر کوچنگ میں بھیجنے کیلئے مجبور ہوگئے ہیں۔ مودی حکومت کے دس سال گذرگئے کبھی تو اس پر بات کیجئے کہ اتنا ٹیکس دینے کے باوجود آپ کی زندگی کی ٹانکی بھر کیوں نہیں پارہی ہے ؟ ہم دوسرے مسئلوں یا موضوعات کو غیر ضروری نہیں کہہ رہے ہیں لیکن کیا ہم ان موضوعات پر اُسی طرح باتیں کررہے ہیں جس طرح سے سوشل میڈیا پر لوگ ان لوگوں کی باتیں کررہے ہیں۔ کمار وشواس، پرشانت کشور اور رمیش بدھوری کی باتیں ہورہی ہیں۔ ایک شاعر اور فنکار نے شتروگھن سنہا کی بیٹی اور اداکارہ سوناکشی سنہا پر نجی تنقید کردی تو اس کی مذمت کرنی چاہیئے۔ کرینہ کپور سے ملاقات کا ویڈیو وزیر اعظم بڑے پیمانے پر شیئر کرنے سے گریز نہیں کرتے ان کے بچوں سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ کمار وشواس کرینہ کپور کے نابالغ بیٹے تیمور پر تبصرہ کرتے ہیں، تیمور نام کو لیکر ان کا ہر بیان دہرانے کے قابل ہے لیکن سوال اس عوام سے بھی ہے جو وہاں بیٹھے باتوں پر تالیاں بجاتی ہے اس طرح کے لوگوں کی کیا سطح ہے۔ ویسے بھی تیمور کا مطلب لوہا ہوتا ہے جسے فولاد کہتے ہیں۔ آسام کے چیف منسٹر رہی ہیں انورا تیمور 2020 میں ان کی موت پر وزیر اعظم نریندر مودی نے دکھ کا اظہار کیا تھا تب تو یہ نہیں کہا تھا کہ ان کا نام کسی متنازع شخص کے نام پر ہے اظہار تعزیت نہیں کریں گے۔ کسی دن کمار وشواس امیت شاہ کے نام میں شاہ کو لیکر ہی اُلٹا سیدھا نہ کہہ دیں۔کمار وشواس کا پرانا ویڈیو بھی وائرل کیا جارہا ہے جس میں وہ فلم اداکارہ ملیکہ شراوت کے کپڑوں اور جسم کی بناوٹ پر تنقید کررہے ہیں۔ جسم کے کسی بھی حصہ پر تبصرہ اس مغربی سماج میں بھی برا سمجھا جاتا ہے جسے دن رات اپناکر مغرب کے کچھ لوگ اپنے آپ کو تہذیب کا پاسبان کہتے ہیں۔
دہلی انتخابات میں ہیرا پھیری کا امکان
دہلی میں رائے دہی 5 فروری کو ہوگی اور نتائج 8 فروری کو آجائیں گے۔ دہلی انتخابات کو لیکر چیف الیکشن کمشنر نے پریس کانفرنس بلائی، صحافیوں نے کئی ایک سوالات بھی کئے لیکن دہلی کی فہرست رائے دہندگان میں نام شامل کرنے اور حذف کرنے کو لیکر الگ سے کسی نے کوئی سوال نہیں پوچھا۔ اگر دیکھا جائے تو پریس کانفرنس میں یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیئے لیکن دہلی کو لیکر وہ سوال ہی نہیں سنائی دیا جسے عام آدمی یا پارٹی اٹھا رہی ہے۔ دہلی کی فہرست رائے دہندگان میں 20 دنوں میں 5 لاکھ لوگوں کے نام شامل کرنے کی درخواست کہاں سے آرہی ہے۔ دہلی کے الیکشن کمشنر نے کہا کہ اس پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے اسے نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ عام آدمی پارٹی الزام عائد کررہی ہے کہ کئی حلقوں میں نام حذف کرنے کے احکامات دیئے جارہے ہیں مگر جس کا نام حذف کیا جارہا ہے وہ پرزور انداز میں کہہ رہا ہے کہ اس نے درخواست دی ہے۔ عاپ نے کہا ہے کہ ان تمام درخواست گذاروں کی جانچ ہونی چاہیئے جنہوں نے یا جن کے نام پر کسی رائے دہندوں کا نام فہرست رائے دہندگان سے حذف کرنے کی عرضی دی ہے۔
’ انڈین ایکسپریس‘ کے پہلے صفحہ پر شائع خبر میں بتایا گیا کہ دہلی میں فہرست رائے دہندگان میں ناموں کی شمولیت کیلئے عوام کا اژدھام دیکھا جارہا ہے اور ایسے میں ناموں کی شمولیت اور حذف کئے جانے کے عمل کی جانچ کی جانی چاہیئے۔ الیکشن کمیشن کے عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ جس طرح سے 16 ڈسمبر کے بعد سے نئے رائے دہندوں کے نام شامل کرنے کا ہنگامہ مچا ہے اس کی سنجیدگی سے جانچ ہونی چاہیئے۔ اسی عہدہ دار کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ 25 نومبر کے بعد سے5 لاکھ سے زائد لوگوں نے اپنے نام فہرست رائے دہندگان میں شامل کروانے کی درخواست دی ہے جبکہ اکٹوبر کے بعد 3 لاکھ نئے ووٹروں کے نام فہرست رائے دہندگان میں شامل کئے جاچکے ہیں۔