محمد اسد علی ،ایڈوکیٹ
خلع کے لغوی معنی علیحدہ اور جدا کرنے کے آتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے حکم دیا: پس تم اپنی جوتیاں اُتار دو، بے شک تم مقدس وادی طویٰ میں ہو۔ (سورہ طحہٰ ، آیت12) قرآن پاک نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ وہ تمہارے لئے لباس ہے اور تم ان کے لباس (یعنی پردہ) ہو۔ (سورہ ٔبقرہ ۔آیت 187) اصطلاح میں خلع عورت سے کچھ لے کر نکاح ختم کردینے کا نام ہے۔ خلع کا ثبوت قرآن پاک سے بھی ہے۔
کئی روایات میں ہے کہ حضرت ثابت قیس ؓ کی اہلیہ رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ! مَیں ثابت کے اخلاق اور اُن کی دینداری کے بارے میں کوئی عیب نہیں لگاتی لیکن مجھے ان کی ناقدری کا خطرہ ہے، اسی لئے میں ان سے علیحدگی چاہتی ہوں۔ دونوں میں کسی ایک جانب سے خلع کی پیشکش کرنے سے خلع مکمل نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے شوہر اور بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے یعنی اگر خلع کی پیشکش شوہر کی طرف سے ہو تو بیوی کا راضی ہونا ضروری ہے اور اگر بیوی کی طرح سے ہو تو شوہر کا راضی ہونا ضروری ہے۔ شریعت میں اس کے لئے سارے مسائل کا حل موجود ہے۔ بعض عورتیں مرد کی جانب سے طلاق نہ دیئے جانے کی صورت میں معلق زندگی گذارتی ہیں اور بعض شوہر بیوی کو تنگ کرتے ہوئے جسمانی، معاشی، ذہنی اذیتیں دیتے ہوئے ان کی زندگی کو تکلیف دہ بنادیتے ہیں۔ ان حالات میں ایسی عورتیں شادی کی تحلیل کیلئے کبھی مسلم قانون کے تحت ازدواجی بندھن میں بندھی عورت مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر شادی کی تحلیل کیلئے عدالت سے رجوع ہوسکتی ہے۔
٭ شوہر کے ٹھکانے کا گزشتہ چار سال سے پتہ نہ چلا ہو۔ یا ٭ شوہر نے بیوی کے ساتھ لاپرواہی کی ہو یا 2 سال تک کیلئے Maintenance فراہم نہ کیا ہو۔ یا ٭ شوہر کو 7 سال یا اس سے زائد مدت تک قید کی سزا ہو۔ یا ٭ شوہر کسی مناسب وجہ کے بغیر 3 سال تک اپنی ازدواجی زندگی ذمہ داری میں ناکام رہا ہو۔ یا
٭ شوہر 2 سال تک فائزالعقل رہا ہو یا وہ جذام یا کسی امراض خبیثہ کا شکار رہا ہو۔ یا ٭ باپ نے یا کسی دوسرے سرپرست نے 15 سال کی عمر سے قبل اس کی شادی کردی ہو اور 18 سال کی عمر تک پہونچنے سے قبل شادی سے دستبرداری اختیار کرلی ہو بشرطیکہ شادی کی تکمیل جنسی ملاپ کے ذریعہ نہ ہو۔ یا ٭ اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا ہو یعنی ٭ شوہر اس پر عادتاً مارپیٹ کرتا ہو اور ظالمانہ رویہ سے اس کی زندگی تکلیف بناتا ہو۔ یا ٭ شوہر بدنام خواتین کے ساتھ روابط رکھتا ہو اور رسواء کن زندگی گزارتا ہو۔ یا ٭ اسے غیراخلاقی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا ہو۔ یا ٭ اگر شوہر کی ایک سے زائد بیویاں ہو اور وہ قرآن کے احکام کے مطابق یکساں سلوک نہ کرتا ہو۔ یا ٭ اس کی جائیداد کو فروخت کردیتا ہے یا بیوی کو اس کی جائیداد کو قانون کے حقوق کے استعمال سے روکتا ہے۔ایک باپ اپنی بیٹی کو پال پوس کر کسی غیر کے حوالے اس لئے نہیں کرتا کہ شادی کے بعد اس کی بیٹی کی زندگی تکلیف دہ بنادے بلکہ اس پر بھروسہ کرتا ہے کہ اسے خوش رکھے گا اور اس پر ظلم نہیں کرے گا اور نہ اس پر ظلم ہونے دے گا ، لیکن وہ بہو تمہاری کیسے عزت کرے گی جسے تم ہر روز طعنہ دیتے ہو، اکثر میاں بیوی میں لڑائی جھگڑے کی وجہ بعض ساسوں کا ظلم اور شوہر کی طلاق شدہ بہنیں جو مائیکہ میں رہ کر رعب کرتی ہے، ایسے بہت سے کیس ہیں جس کی وجہ سے شادیاں ٹوٹ رہی ہیں، ہر ساس ہر لڑکی ایسا نہیں کرتی لیکن کچھ ساس ، نندوں کے ظلم سے بھی شادیاں ٹوٹ رہی ہیں۔
نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا جب ایک عورت شوہر کو خوش رکھتی ہے اور شوہر کی جائز بات مانتی ہے اور اس کی خدمت کرتی ہے تو اللہ اس سے خوش ہوتے ہیں۔ نیک عورت وہ ہے جو شوہر کے حقوق ادا کرے اور اسے ناراض نہ کرے اور اس کی رضامندی حاصل کرے اور گھر میں سکون کا ماحول بنائے رکھے اور اس کا شوہر اس سے راضی ہوگا تو وہ جنت میں جائے گی۔ ایک اور حدیث پاک میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: یعنی حلال اور جائز چیزوں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے یعنی جو عورت اپنے شوہر سے کسی سخت تکلیف کے بغیر طلاق کا مطالبہ کرے، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
اسلام میں شوہر اور بیوی کے درمیان علیحدگی کیلئے تین طریقے متعین ہیں اور ہر طریقہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ پہلا طلاق جس کا اختیار مرد کو دیا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ وہ اس کا بیجا استعمال نہ کرے۔ دوسرا خلع جس میں شوہر اور بیوی کی باہمی رضامندی سے طلاق واقع ہوتی ہے اس صورت میں بھی بیوی یکطرفہ طور پر خلع نہیں کرسکتی۔ یہ بھی ایک طلاق کی صورت ہے، البتہ اس میں شوہر اور بیوی کی آپسی مفاہمت شامل رہتی ہے۔ تیسری صورت فسخ نکاح کی ہے جو عدالت کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے۔ اگر بیوی علیحدگی چاہتی ہو اور شوہر طلاق دینے کو تیار نہ ہو تو عدالت کے ذریعہ فیصلہ ہوتا ہے۔ اگر عدالت عورت کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کرے بھی تو یہ کارروائی شریعت کے لحاظ سے جائز نہیں قرار پاتی جس کیلئے شوہر کی رضامندی ضروری ہے، ورنہ خلع شرعا معتبر نہ ہوگا۔ اگر میاں بیوی دونوں شوہر بیوی کی حیثیت سے زندگی نہیں گذارنا چاہتے اور یہ طئے کرچکے ہیں کہ دونوں میں جدائی یعنی علیحدگی ضروری ہے یا کسی ایک فریق کی جانب سے خلع یا طلاق کی پیشکش ہو تو ان حالات میں فریقین کو اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرکے صلح و صفائی کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے اور دوبارہ زندگی کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے یا پھر اس مسئلہ کو عمدگی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ مزید تفصیل کیلئے فون نمبر 9959672740 پر ربط کیا جاسکتا ہے۔