تلنگانہ میں وقف اراضیات کی تباہی افسوسناک، حکومت سے جواب طلب کرنے کا اختیار، سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل محمود پراچہ اور دیگر کا ببانگ دہل خطاب
حیدرآباد۔30اپریل(سیاست نیوز) وقف کی جائیدادیں اللہ کی امانت ہیں اس کو بچانے کی ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کو آئین کی دفعہ 5اور 6کے تحت کام کرتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کرنے اور وقف املاک کی حفاظت کے لئے سرگرم ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔ ہندوستان بھر میںاربوں روپیوں کی وقف جائیدادیںجس کی صیانت کے بعد مسلمانوں کسی حکومتی مراعات کے مرہون منت ہونے کی ضرورت نہیںرہے گی ۔سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل محمود پراچہ نے دفتر سیاست کے عابد علی خان سینٹینری حال میں’’ائین کا تحفظ او رہماری ذمہ داریوں ‘‘ کے عنوا ن پر منعقدہ سمینار سے خطاب کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا۔جناب ظہیر الدین علی خان کے علاوہ صدر صوفی کونسل مولانا سید خیر الدین صوفی نے بھی خطاب کیا۔محمود پر اچہ نے کہاکہ صیہونی اور منووادی طاقتیں ملک کے آئینی نظام کوختم کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔انہوںنے مزیدکہاکہ آزادی کے بعد سے ہی منووادی طاقتوں کی منشاء جمہوری ہندوستان کے قیام کی ہرگز نہیںتھی ‘ اوریہی وجہہ تھی کہ ملک کو دو حصوں میںتقسیم کردیاگیا۔ محمود پراچہ نے ملک کی تقسیم کا منووادی طاقتوں کو ذمہ دار ٹہراتے ہوئے کہاکہ منووادیوں کو اس بات کااچھی طرح اندازہ تھا کہ اگر ملک کے دو تکڑے نہیںکئے جاتے ہیں تو اکثریت مسلمانوں کی ہوجائے گی اور اس کاراست فائدہ بھی مسلمانوں کو ہی ہوگا۔ کیونکہ مسلمانوں کو انصاف او رمساوات کی تعلیم دی گئی ہے۔محمودپراچہ نے کہاکہ منظم اندازمیں سوشیل انجینئرنگ کاتجربہ مسلمانوں کے پاس ہے۔ انھوں نے شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں کی اعلیٰ قیادتوں کے رویہ کو قابل مذمت قراردیا اورکہاکہ مسلمانوں کی اعلی قیادتیں آر ایس ایس اور بی جے پی کی دلالی کررہے ہیں۔انہوں نے انکشاف کرتے ہوئے کہاکہ مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ سے مسلم قیادتیں ملاقات کرتی ہیں اور اس کے اگلے دن دہلی میں109سے زائد اوقافی جائیداوں پر قبضہ کئے جاتے ہیں۔انہوں نے الزام لگایاکہ مسلمانوں کی بے ایمان قیادت کو یرغمال بنالیاگیا ہے۔محمود پراچہ نے تلنگانہ میںاوقافی جائیدادوں کی زبوں حالی پر تشویش کااظہار کیااورکہاکہ حیدرآباد میںباشعور مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود اوقافی جائیدادوں کی اس قدر تباہی قابل افسوس ہے ۔ انہوں نے مزیدکہاکہ ہندوستان کے ہر شہری کو اس بات کااختیار حاصل ہے کہ وہ حکومت اور اس کے ادارو ں سے سوال کرے اور جواب دینے کی ذمہ داری بھی حکومت او راداروں پرعائد ہوتی ہے اور یہ اختیار آئین نے ہر شہری کو دیاہے ۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اوقافی جائیدادوں کے متعلق حکومت او رمتعلقہ اداروں سے سوال کرے ۔ انہو ںنے کہاکہ اگر مسلمان ریاست تلنگانہ کی اوقافی جائیدادوں کی صیانت میںسنجیدگی اختیارکرتے ہیں تو مسلمانوں کو ریاستی حکومت کی مرعات ‘ تحفظات یا پھر فلاحی اسکیمات پر منحصر رہنے کی ضرورت نہیںرہے گی ۔انہوں نے کہاکہ شہر حیدرآباد کے بعد ضلع میدک او رعادل آباد کے بشمول ریاست کے تمام اضلاعوں میں اوقافی جائیدادیں موجود ہیں ۔انہوں نے کہاکہ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے محلہ جات میںاوقافی جائیداددوں کی نشاندہی کریں اور وقف بورڈ سے نمائندگی کرتے ہوئے اس جائیداد کو بچائیں ۔جناب محمود پراچہ نے کہاکہ دہلی میں ہم نے یہی کام کیااور جبکہ دہلی کی اربوں روپئے کی قیمتی اوقافی اراضیات پر سیاسی اورسرمایہ دار مافیاکا قبضہ تھا۔انہوں نے کہاکہ ایک تہائی دہلی وقف ہے اور اگر ساری اراضی کی بازیابی کے ساتھ اس کا صحیح استعمال کیاجائے تو دہلی کا ہر مسلمان کروڑ پتی ہوگا ۔ پراچہ نے کہاکہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم تنظیمی طاقت رکھنے کے باوجود منظم نہیںہیں۔آئین کی دفعہ 6اور7کے حوالے سے محمود پراچہ نے کہاکہ ہر مسلمان کو اللہ کی امانت کی حفاظت کا حق حاصل ہے اور وہ اس کے متعلق حکومت اور متعلقہ محکمہ کے ذمہ داران سے سوال کرسکتا ہے۔انہوںنے تلنگانہ کے مسلم نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ ہر دن دوگھنٹوں کاوقت نکالیںاور اپنے اپنے علاقوں محلہ جات کی اوقافی اراضیات کی نشاندہی کریں اور اس کی صیانت وحفاظت کے لئے سرگرم ہوجائیں۔ انہو ںنے کہاکہ تلنگانہ کے بشمول ملک کی ہر ریاست میںاوقافی جائیدادوں کا حال برا ہے ‘ ارباب مجاز کے ساتھ ساتھ اسٹانڈنگ کونسل بھی ’’ ساز باز ‘‘ میں ملوث ہے۔محمود پراچہ نے کہاکہ تلنگانہ کی قیمتی لینکو ہلز کی اراضی کے معاملے کو دوبارہ عدالت عظمیٰ میںاٹھایاجاسکتا ہے ۔ عدالت کوبتانا پڑیگا کہ حکومت نے دھوکہ دیا ہے۔ تلنگانہ وقف بورڈ کے ریکارڈ روم کو مقفل کردئے جانے کے متعلق محمود پراچہ نے کہاکہ ریکارڈ روم میںکاغذات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اگر کی گئی ہے تو حکومت کا اس کا سخت خمیازہ بھگتنا پڑیگا۔ عوامی نمائندے ہوں یاسرکاری ملازمین وہ نوکر ہیں اور عوام مالک ہے ۔ اگر عوام کی مانگ کو نظر اندازکیاجاتا ہے تو عوامی نمائندوں اورسرکاری ملازمین کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑیگا۔انہوں نے عوام کوآئینی حقوق سے واقف کروانا اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب دینا ہے اوراس کی پہلی سیڑھی اوقافی جائیدادوں کی صیانت کے لئے احتجاجی لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔انہوںنے کہاکہ عدالتوں کا رخ کرنے سے قبل ہمیںسڑکوں پراترنے کی ضرورت ہے اور حکومت کویہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ہم کس قد رمنظم قوم ہیں۔جناب ظہیر الدین علی خان نے کہاکہ عید گاہ گٹلہ بیگم پیٹ کی 90ایکڑ اوقافی اراضی ہے جس پر قبضہ ہیں۔ انہو ںنے کہاکہ جب تک کانگریس او رتلگودیشم ریاست آندھرا پردیش میںبرسراقتدار تھے اسوقت مذکورہ سیاسی پارٹیوں کے مسلم قائدین غیرمجاز قبضوں کی ذمہ دار رہے اوراب ٹی آر ایس پارٹی اقتدار ہے میںہے تو اس پارٹی کے مسلم لیڈران اورکارکنان اس قیمتی وقف اراضی پر قابض ہیں۔انہو ںنے کہاکہ تلنگانہ میں د س لاکھ کروڑ کی اوقافی اراضیات ہیں جس کی بازیابی اورصیانت تلنگانہ کے مسلمانوں کی زندگیوں میںبہتری لانے کے لئے کافی کار آمد ثابت ہوگی۔انہوںنے کہاکہ دہلی کے بعد پورے ملک میں حیدرآباد ایک ایسا شہر ہے جس کو مرکزیت حاصل ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے دیمک بن کر اوقافی املاک کو تباہ کیاہے۔جناب ظہیر الدین علی خان نے صیانت اوقاف کے علاوہ سوشیل میڈیا پر بھی توجہہ مرکوز کرنے کا مسلمانو ں کو مشورہ دیا۔ انہو ںنے بتایاکہ ٹوئٹر نے نیوز ایجنسی اے این آئی اور این ڈی ٹی وی کے ہینڈلس کو مقفل کردیاجبکہ سیاست کے فیس بک پیج کو بھی بند کردایاگیا ہے۔انہوں نے کہاکہ یقینا مسلمان ایک باشعور قوم ہے ۔ ہجومی تشدد کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے حال ہی میںراجستھان کے ساکنان کے ساتھ پیش آئے ہجومی تشدد کے واقعہ میں متوفیوں کے افراد خاندان کی زبوں حالی کی داستان سنائی۔ انہوں نے کہاکہ حیدرآباد کی عوام کے جذبہ خیرسگالی کو سلام ہے ۔ ایک درخواست پر سیاست کے قارئین نے نصیر کے اکاونٹ میں8لاکھ اور جنید کے اکاونٹ میں17لاکھ روپئے کاجمع کرائے ۔ سمینار کے دوران بہت سارے تجاویز بھی پیش کئے گئے جس میںاوقافی جائیداد وں کی حفاظت کے لئے ملین مارچ کا بھی اعلان شامل ہے۔ اس کے علاوہ ’’ سیف کانسٹوٹیوشن فاونڈیشن‘‘ کے حیدرآباد چیاپٹر کے قیام کا بھی اعلان کیاگیاہے۔ سمینار میںطئے کیاگیاکہ حیدرآباد کے تین اہم قیمتی اوقافی اراضیات جس میں عید گاہ گٹلہ بیگم پیٹ‘ لینکو ہلز اور جی ایم آر ائیرپورٹ کے نام شامل ہیں کی بازیابی کی لڑائی ازسر نوشروع کی جائے گی۔ عوام کی کثیرتعداد نے سمینار میںشرکت کی ۔