رام پنیانی
گزشتہ ماہ کے اواخر میں (26 جولائی 2025) مدھیہ پردیش کے درگ اسٹیشن پر دو عیسائی راہباوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات عائد کئے جبکہ معاملہ بالکل سیدھا سادھا تھا۔ دراصل ان دو عیسائی راہباوں کے ہمراہ تین خواتین بھی تھیں جو پیشہ وارانہ ماہر نرسیس کی حیثیت سے تربیت حاصل کرنے کی خواہاں تھیں۔ راہباوں کی سنگین الزامات کے تحت گرفتاری کو لیکر لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ سی پی آئی ایم لیڈر برنداکرت کے ساتھ پہنچے ایک کل جماعتی وفد کو راہباوں سے ملاقات کی باآسانی اجازت نہ دی گئی۔ دونوں راہباوں کے خلاف انسانی اسمگلنگ اور تبدیلی مذہب کے الزامات عائد کئے گئے جبکہ ریاست کے چیف منسٹر راہباوں کے خلاف انسانی اسمگلنگ اور تبدیلی مذہب کی کوششوں میں ملوث رہنے جیسے الزامات پر ڈٹے رہے اس کے برعکس راہباوں کے ہمراہ جانے والی تین خواتین کے والدین اور سرپرستوں نے پرزور انداز میں کہا کہ ان لوگوں نے ہی اپنی بیٹیوں کو بہتر روزگار کے حصول کی خاطر راہباوں کے ساتھ جانے کی اجازت دی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو پچھلے 11 برسوں کے دوران عیسائیوں کو کسی نہ کسی بہانے سے ڈرانے دھمکانے کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور اس قسم کے زیادہ تر واقعات بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں دیکھے گئے۔ مقامی علاقائی اور عالمی ایجنسیوں نے ہندوستان میں عیسائیوں کی ہراسانی کے بڑھتے واقعات پر حالیہ عرصہ کے دوران روشنی ڈالی ہے۔ مثال کے طور پر 26 اپریل 2024ء کو چھتیس گڑھ کے ایک ہاسپٹل میں 65 سالہ ایک عیسائی شخص کی موت ہوگئی۔ اس کے غمزدہ ارکان خاندان کے رنج و الم میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب مقامی مذہبی انتہا پسندوں نے انہیں گاؤں میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی اور اس کی تدفین کو روک دیا ان لوگوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دوبارہ اپنا مذہب تبدیل کرکے ہندوازم اختیار کرنے کا مطالبہ کیا لیکن متوفی کے خاندان نے زائد از 500 پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں اس کی تدفین عمل میں لائی۔ اس طرح پولیس والوں نے گاؤں میں امن کو یقینی بنایا۔ سال 2023ء میں ایک اہم عیسائی رہنما نے جو پہلے ہی ظلم و جبر کا نشانہ بن چکا پرزور انداز میں کہا کہ ہر روز گرجاگھروں اور پاسٹرس پر چار یا پانچ حملے ہوتے ہیں اور ہر اتوار کو اس طرح کے حملوں کی تعداد دگنی ہوجاتی ہے۔ ایسا ہم نے ماضی میں کبھی نہیں دیکھا۔ وہ مزید کہتا ہیکہ ہندوستان میں عیسائیوں پر حملوں کا سب سے بڑا ذریعہ سنگھ پریوار ہے۔ ’’پراسکیوشن ریلیف‘‘ نامی تنظیم نے 2020 کی اپنی رپورٹ میں پرزور انداز میں کچھ یوں بتایا ’’ہندوستان میں عیسائیوں کے خلاف جرائم میں خطرناک حد تک 40,87 فیصد تک اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ اس وقت درج کیا گیا جبکہ سارے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ تھا اور یہ لاک ڈاؤن کووڈ۔19 کی عالمی وبا کے بڑی تیزی سے پھیلنے کے نتیجہ میں نافذ کیا گیا تھا اور مسلسل 3 ماہ تک جاری رہا۔ دوسری جانب اوپن ڈورز کے مطابق جو عالمی سطح پر عیسائیوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر گہری نظر رکھتی ہے عیسائیوں پر مظالم کے معاملے میں بدنام ممالک میں ہندوستان کا 11 واں نمبر ہے اور اس ملک میں عیسائی اقلیت کو ہمیشہ مظالم کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ (2024)
سدھی سیلواراج اور کینیتھ نیلسن بہت ہی مناسب طور پر دلیل دیتے ہیں کہ یہ عیسائی مخالف تشدد ایک مضبوط ساختی شکل اختیار کرگیا ہے جس میں انتقامی حملے بلوائیوں کے ساتھ پولیس کا گٹھ جوڑ اور ریاستی قانون کا بیجا استعمال شامل ہیں اور یہ غیرہندو مذہبی اقلیتوں کے خلاف ایک وسیع تر قومی سوچ و فکر کی پیداوار ہے اور یہ ایسی سوچ ہے جو عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کو قوم دشمن سمجھتی ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے ہندوستان میں عیسائیوں کے خلاف بڑھتے تشدد کی بڑھتی شکلیں واضح ہوجاتی ہیں۔ عیسائی مخالف تشدد کا جہاں تک سال ہے اس قسم کا پہلا بڑا واقعہ اندور میں 1995ء میں پیش آیا۔ رانی ماریہ کے بہیمانہ قتل کا واقعہ تھا پھر اس کے بعد جو بھیانک واقعہ پیش آیا وہ پاسٹر گراہم اسٹین اور ان کے دو بیٹوں کو زندہ جلادینے کاو اقعہ ہے جو 1999ء میں پیش آیا۔ گراہم اسٹین ایک آسٹریلیائی عیسائی مبلغ تھے جو اوڈیشہ کے قبائلی علاقہ کیونجھار میں کام کررہے تھے ان کا کام جذام سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنا ان کی خدمات کرنا تھا۔ گراہم اسٹین پر قبائلیوں کا مذہب تبدیل کرواکر انہیں عیسائی بنانے کے الزامات عائد کئے گئے۔ بی جے پی حکومت تھی جس کی قیادت اٹل بہاری واجپائی کررہے تھے اور افسوس کی بات یہ ہیکہ بی جے پی قائدین نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ حکومت کو بدنام کرنے بیرونی طاقتوں کی جانب سے رچی گئی ایک سازش تھی بعد میں وادھوا کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں واضح کیا کہ بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والا راجندر پال المعروف داراسنگھ اصل سازشی تھا فی الوقت داراسنگھ جیل میں ہے اور سزائے عمر قید بھگت رہا ہے (داراسنگھ کے بارے میں وکی پیڈیا پر جو تفصیلات ہیں ان کے مطابق وہ بی جے پی کا ایک رکن اور بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کا ایک سرگرم کارکن تھا۔ ساتھ ہی گاوسرکھشا سمیتی کا سرگرم ممبر بھی تھا۔ 1998ء کے انتخابات میں اس نے بی جے پی کے حق میں انتخابی مہم بھی چلائی اور آر ایس ایس کیمپس میں لازمی طور پر شرکت کیا کرتا تھا)
داراسنگھ اور اس کے گروپ کے ہاتھوں گراہم اسٹیشن اور ان کے دونوں بیٹوں کے بہیمانہ قتل سے قبل آر ایس ایس کی قائم کردہ ونواسی کلیان آشرم اس بات کا رونا رونے لگی تھی کہ عیسائی مشنریز تعلیم اور صحت کے شعبہ میں کام کرکے لوگوں کو عیسائی بنارہے ہیں آر ایس ایس نے اس قسم کے آشرم گجرات کے ڑنگ، اوڈیشہ کے جھابوا اور کندھامل وغیرہ میں بھی قائم کیا جہاں سوامی اسیمانند، سوامی لکشمانند نے پروپگنڈہ شروع کیا۔ اس کے علاوہ کئی شابری کمبھاس کا اہتمام کرتے ہوئے آدی واسیوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہ ہندو ہیں آدی واسی علاقوں میں وانواسی کلیان آشرموں نے قبائلی دیوی دیوتاؤں کے ساتھ ساتھ ہنومان جی کو شری رام چندر جی کے وفادار بھکت کے طور پر پیش کرنا شروع کیا اور مختلف علاقوں میں رام جی اور ہنومان جی کی مندریں تعمیر کی گئیں۔ اس پروپگنڈہ کے دوران آر ایس ایس کے لوگ یہ بھول گئے کہ عیسائیت ہندوستان کا ایک قدیم مذہب ہے۔ سینٹ تھامس نے 52 عیسوی میں ساحل ملبار پر ایک گرجاگھر قائم کیا تھا اور ان کے اس کام کے دو سال بعد آج ملک میں عیسائیوں کی آبادی جملہ آبادی کا 2.3 فیصد حصہ ہوگئی۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ 1971 میں عیسائیوں کی آبادی 2.6 فیصد تھی اور آج 2.3 فیصد ہے جبکہ یہ جھوٹ پھیلائی جارہی ہے کہ عیسائی مشنریز لوگوں کو زبردستی دھوکہ سے اور لالچ سے عیسائی بنارہے ہیں۔