عین وقت پر ملائم سنگھ کی خلاء بازی

   

غضنفر علی خان
ملائم سنگھ کا شمار ملک کے سنجیدہ و تجربہ کار اور اہل لیڈروں میں ہوتا ہے ، وہ سماج وادی پارٹی کے بانی و صدر رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی برسر اقتدار پارٹی اور خاص کر بی جے پی سے مفاہمت نہیں کی ۔ دراصل وہ ایک الگ سیاسی فکر کے حامی ہیں ، ان کا کانگریس سے کوئی اختلاف نہیں ہے ، البتہ بی جے پی سے انہیں ہمیشہ سخت اختلاف رہا اور بی جے پی ان کو ناپسند کرتے ہوئے ’’ ملا ملائم سنگھ ‘‘ کہہ کر ہمیشہ ان کا مذاق اڑاتی رہی لیکن گزشتہ پارلیمانی سشن کے آخری دن ایوان میں ملائم سنگھ کی اچانک غیر متوقع تائید و ستائش نے خود بی جے پی کو حیران کردیا ، ملائم سنگھ نے مودی کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے انہیں آشیرواد دیا۔ ایک ایسے وقت جبکہ متفقہ طور پر اپوزیشن مودی کی مخالف ہے اور تمام اپوزیشن جماعتیں متحدہ طور پر مجوزہ انتحابات میں ہرانے کی کوشش کر رہے ہیں، ملائم سنگھ یادو جیسے جہاں دیدہ لیڈر کو اچانک وزیراعظم میں خوبیاں نظر آنے لگیں، ایک ایسے وقت جبکہ ہندوستان کی تقریباً تمام جماعتیں مودی کی مخالفت کررہی ہیں اور ان جماعتوں میں ملائم سنگھ کے باغی فرزند اکھلیش یادو پیش پیش ہیں۔ اپوزیشن کے اس اتحاد کو پارلیمنٹ کے فلور پر منقسم ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے ’’ملائم سنگھ‘‘ نہ صرف اپنی تائید کی بلکہ یہ بھی کہا کہ مودی جی اچھی حکمرانی کر رہے ہیں اور انہیں آئندہ بھی وزیراعظم بنایا جانا چاہئے۔ جس وقت وہ یہ ستائیشی کلمات کہہ رہے تھے ، وزیراعظم مودی ا یوان میں اپنی نشست سے جھک جھک کر ان کا شکریہ ادا کر رہے تھے ۔ جس کے جواب میں ملائم سنگھ یادو بھی جھک کر نہایت انکسار کے ساتھ انہیں ’’نمسکار‘‘ کر رہے تھے ، اپوزیشن پر خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ ملائم سنگھ کے برابر بیٹھی ہوئی یو پی اے کی صدر محترمہ سونیا گاندھی تو حیرت کا مجسمہ بن گئی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ آخر ملائم سنگھ کو اچانک یہ کیا سوجھی کہ انہوں نے اپنا موقف بدل دیا ۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ اپوزیشن قائدین کیوں اتنی شدت کے ساتھ مخالف حکومت اور مخالف مودی ہوجائیں۔ اپوزیشن گزشتہ پانچ سال سے وزیراعظم مودی کے آمریت پسند رویہ کو دیکھ رہے تھے کہ کس طرح ملک میں دستوری اداروں کی وزیراعظم کے ہاتھوں تباہی ہورہی ہے ۔ انہیں بجا طور پر یہ خدشہ لاحق ہوگیا تھا کہ اگر موجودہ حکومت کو مزید موقع دیا جاتا ہے تو ملک کی جمہوریت اور اس کے سیکولرازم کو خطرہ لاحق ہوجائے گا ۔ ہندوستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ سیکولر مزاج رکھتا ہے ۔ 2014 ء کے پچھلے انتخابات میں مودی نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی ، اس میں بھی ان کی پارٹی بی جے پی کو صرف 31 فیصد ووٹ ملے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ 69 فیصد ہندوستانی رائے دہندے بی جے پی اور مودی کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔ یہ بھاری فیصد عوام کون ہے ؟ اور انہوں نے مودی کے مقابلہ میں آخر کونسی کونسی پارٹیوں کو ووٹ دیا تھا ۔ ظاہر ہے یہ ووٹ مخالف بی جے پی تھا لیکن بدقسمی سے بڑی طرح سے منتشر حالت میں تھا اور اسی انتشار نے بی جے پی کو کامیاب بنایا ۔

ملائم سنگھ یادو کو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ انتشار کا کتنا برا نتیجہ نکلتا ہے ، اسی لئے اپنے انتشار کو ختم کر کے محالف بی جے پی ووٹ کو متحد کرنے کے لئے بی جے پی کو شکست دینا اپوزیشن اتحاد یا ’’گرانڈ الائینس‘‘ کا مقصد ہے جس سے خود ملائم سنگھ جی اختلاف نہیں کرسکتے تھے، اپنی سیاسی زندگی میں تمام عمر اپوزیشن میں رہنے کے بعد ملائم سنگھ نے کیوں چولہ بدلا ہے ، کیوں انہوں نے کوئی وجہ بتائے بغیر مودی اور بی جے پی کی ڈنکے کی چوٹ پر تائید کی ۔ اس کے کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، سیاسی حلقوں میں یہ سوال بعض گوشوں کی جانب سے اٹھایا جارہا ہے کہ کیا ملائم سنگھ کی نگاہ صدر جمہوریہ ہند کے عہدہ پر ہے کیونکہ اپنی سیاسی زندگی میں وہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے انتہائی طاقتور چیف منسٹر رہے ہیں۔ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے وہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت میں کئی عہدوں کے لئے منتخب کئے جانے والے تھے ، ایک مرحلہ پر وہ کچھ عرصہ تک ملک کے وزیر دفاع بھی رہے گویا زندگی میں سیاسی اعتبار سے وہ کامیاب لیڈر رہے ہیں ۔ سوشلسٹ لیڈر رام منوہر لوہیا کے مکتبہ خیال کے حامی ہیں، ملائم سنگھ سے کسی نے بھی یہ امید نہیں کی تھی کہ وہ ایک آزمائشی موقع پر بی جے پی اور وزیراعظم مودی کی تائید کا اعلان کریں گے ۔ اگر وہ جیسا کہ ابھی تک خاموش رہتے تھے تو اپوزیشن کیمپ میں انہیں کوئی بھی منصب حاصل ہوسکتا تھا۔ مثال کے طور پر بی جے پی کے پلیٹ فارم سے اکثر و بیشتر یہ پوچھا جاتا ہے کہ گرانڈ الائینس میں ملک کے وزیراعظم بننے کا اہل لیڈر کون ہے …؟ بعض حلقے اب یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ملائم سنگھ نے مودی کی اس طرح سے حمایت نہ کی ہوتی تو یہ اتحاد ہوسکتا ہے کہ ان کو اپنی انتخابی جیت کے بعد وزارت عظمی کے امیدوار کی حیثیت سے پیش کرتا یہ تو ملائم سنگھ یادو ہی بتاسکتے ہیں کہ ساری زندگی سیکولر رہنے کے بعد آخر ، آخری وقت میں انہوں نے کیوں بی جے پی ، آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی تعریف و ستائش کرتے ہوئے یہ امید ظاہر کی کہ آئندہ بھی نریندر مودی ملک کے وزیراعظم رہیں گے ۔ خیر جو کچھ ہوا اس کا ابھی تک کوئی اثر اپوزیشن کے اتحاد پر نہیں پڑا۔ پا رٹیاں جس طرح متحد ہورہی ہیں ، وہ عمل بدستور جاری ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ابھی تک ’’گرانڈ الائینس مہا گٹھ بندھن ‘‘ کے کسی لیڈر نے ملائم سنگھ یادو کی خلاء بازی کو کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ ان کے اس عمل کو بچکانہ سمجھ کر اسے نظر انداز کردیا ہے ۔ اس وقت صرف بی جے پی کی تائید کرنے سے یا نریندر مودی کو دوبارہ وزیراعظم بنانے کی تائید سے ملائم سنگھ یادو کچھ حاصل نہیں کرسکیں گے کیونکہ سارا ملک اور تمام جماعتیں یہ فیصلہ کرچکی ہیں کہ بی جے پی حکومت اور مودی کو شکست دیں۔ ملک میں ایک عام لہر جو بڑی تیزی سے چل رہی ہے ، اس سے بھی ما ہرین یہ اندازہ کر رہے ہیں کہ ہندوستان میں فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف سیکولر جماعتیں ایک موثر محاذ بناچکی ہے ۔ ملائم سنگھ نے گویا غلط وقت پر ایک انتہائی نقصان دہ فیصلہ کیا ہے ۔ خود ان کی سماج وادی پارٹی کی ساکھ اس کی جنم بھومی اترپردیش میں گر گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملائم سنگھ یادو کے جانشین اکھلیش یادو نے اترپردیش کی دوسری اور اہم پارٹی ’’بہوجن سماج‘‘ کی کرتا دھرتا مایاوتی سے دوستی کا ہاتھ ملا لیا ہے ۔ ا ترپردیش میں سماج وادی پارٹی کے مواقع بہوجن سماج پا رٹی سے بہت کم ہیں ۔ مسلم ، دلت ووٹ جس پر یہ دونوں پارٹیاں انحصار کرتی ہیں ۔ ملائم سنگھ یادو کو سبق سکھا دے کے وہ (عوام) 1990 ء کے اس ملائم سنگھ یادو سابق وزیر اعلیٰ اترپردیش کو بہت زیادہ پسند کیا کرتے تھے، جنہوں نے بابری مسجد میں کارسیوکوں پر گولیاں چلانے کا حکم دیا تھا جس کی وجہ سے 1990 ء کے دہے میں بابری مسجد شہید ہونے سے بچ گئی تھی ۔ آئندہ عام انتخابات کو اب صرف چند ہفتے رہ گئے ہیں ملک کا سیاسی منظر تیزی سے بدل رہا ہے ، ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھے بغیر ملائم سنگھ کی جانب سے مودی اور بی جے پی کی تائید کوئی معنی نہیں رکھتی اور شاید اپنے اس فیصلے پر ملائم سنگھ کو زندگی بھر پشیمانی اور شرمندگی کا سامنا رہے گا ۔