غربت نہیں ذہنی غلامی عیب ہے

   

محمد مصطفی علی سروری

سال 2008ء میں بی تیواری نے دسویں کا امتحان پاس کرلیا۔ یوں تو ہر سال ہی لاکھوں طلبہ دسویں کا امتحان پاس کرتے ہیں لیکن تیواری کا تعلق اس خاندان سے تھا جہاں غربت تھی۔ تیواری اپنے ماں باپ کا اکلوتا لڑکا تھا اور اس کی دو بہنیں تھیں۔ چونکہ ماں باپ خود کھیتوںمیں کام کر کے گذارہ کرتے تھے توان کے لیے ضروری تھا کہ ان کا لڑکا بھی کچھ کام کرے تاکہ ان کا گھر چلانے میں کچھ مدد ہو۔ دسویں کی بنیاد پر تیواری کو اپنے گائوں میں تو کوئی ملازمت نہیں ملی لیکن تیواری نے دیکھا کہ اس کے گائوں کے بہت سارے لوگ پڑوسی ریاست اڑیسہ جاکر کام کرتے تھے تو تیواری نے بھی روڑکیلا کا رخ کیا جہاں ایک فیکٹری میں اس کو کام بھی مل گیا لیکن بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے تقریباً 50 کیلو میٹر دور آرا کے مقام سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کے ذہن میں یہ بات نقش تھی کہ والدین کی خدمت کرنا ضروری ہے۔ لیکن تیواری نے یہ بھی طئے کر رکھا تھا جب وہ پڑھ لکھ کر ترقی کرے گا تو اس وقت والدین کی خدمت بھی بہتر طریقے سے کی جاسکتی ہے۔ تیواری نے فیکٹری کی ملازمت چھوڑ دی کیونکہ دن بھر فیکٹری میں کام کر کے پیسے تو مل رہے تھے مگر پڑھائی کا وقت نہیں مل رہا تھا۔ تیواری نے گیارہویں جماعت میں سرکاری کالج میں داخلہ تو لے لیا لیکن اب وہ ساتھ میں ایک اسناک فیکٹری میں کام کر رہا تھا جہاں پر وہ کالج کے بعد کام پر جاتا تھا اور دن کے شروع میں کالج اور کالج سے چھٹی ہونے پر فیکٹری میں کام کر کے دن کے 50 روپئے کمانے والے تیواری نے ثابت کیا کہ ہمت اور ارادہ ہو تو کوئی نہ کوئی راستہ نکل آتا ہے۔ تیواری 50 روپئے فیکٹری میں کام کر کے ساتھ میں اسکول کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاکر کچھ او ر کماتا تھا تاکہ اڑیسہ میں اپنے اخراجات بھی پورے ہوسکیں لیکن ساتھ ہی کچھ پیسے اپنے غریب ماں باپ اور بہنوں کے خرچے کے لیے بھی اپنے گھر بھجوا سکیں۔
کالج فیکٹری اور ٹیوشن کے ساتھ ساتھ تیواری نے جب 12 ویں کا امتحان پاس کرلیا تو آگے کی تعلیم کے لیے (گریجویشن کرنے) ایک ڈگری کالج میں داخلہ لے لیا۔ تیواری کو آگے پڑھنے کی تحریک کہاں سے ملی اس سوال کا جواب ہمیں 12؍ دسمبر 2020 کو اخبار ہندوستان ٹائمز میں دہرہ دون سے شائع ہونے والی ایس سکینہ کی رپورٹ سے ملتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تیواری کے ایک رشتہ دار ہندوستان کی فوج میں سپاہی کے طور پر کام کرتے تھے اور تیواری بھی اپنے چچا کی طرح فوج میں بھرتی ہونا چاہتا تھا۔ ایک دن تیواری کو اس کے چچا نے فون پر اطلاع دی کہ بہار میں فوج میں بھرتی کے لیے ریکروٹمنٹ ریالی ہونے والی ہے بس کیا تھا تیواری اڑیسہ سے فوری اپنی ریاست بہار کو واپس آگیا۔ اور اس ریالی میں شرکت کی لیکن تیواری کو کامیابی نہیں ملی۔ تیواری مایوس نہیں ہوا۔ واپس اڑیسہ جاکر واپس اپنے کام اور تعلیم پر لگ گیا۔ اگلے برس دوبارہ ریکروٹمنٹ کی ریالی ہوئی۔ تیواری نے دوبارہ اس ریالی میں شرکت کی اور اس مرتبہ اس کو کامیابی ملی۔
اب تیواری کی خوشی کی انتہاء نہیں تھی۔ وہ فوج میں بطور سپاہی کام کرنے لگا تھا۔ اس کو EME سنٹر بھوپال میں تعینات کیا گیا تھا۔ یہ سال 2012 کی بات ہے جب بھوپال میں ملازمت کے دوران تیواری کو کسی نے بتلایا کہ وہ سپاہی سے آگے ترقی کرسکتا ہے لیکن اس کو محنت کرنی ہوگی اور ایک مشکل امتحان پاس کرنا ہوگا۔
قارئین غریب مزدور ماں باپ کا بیٹا تیواری محنت کے جذبہ سے مالا مال تھا اور اس کو یقین تھا کہ وہ اپنے چاچا کی طرح صرف سپاہی کی نوکری پر اکتفاء نہیں کرے گا بلکہ ان سے بڑا افسر بن کر بتائے گا۔ یہاں یہ بات نوٹ کی جانی چاہیے کہ سپاہی بننے کی ترغیب تو اپنے چاچا سے حاصل کی لیکن اپنے عقل و شعور کے استعمال کرتے ہوئے تیواری نے Army Cadet College (ACC) میں داخلہ لینے کا فیصلہ کرلیا اور جنوری 2017ء میں تیواری نے آرمی میں سپاہی سے آفیسر بننے کے لیے مقررہ امتحان پاس کرلیا اور انڈین ملٹری اکیڈیمی میں تیواری کو داخلہ بھی مل گیا۔
12؍ دسمبر 2020ء کو جب انڈین ملٹری اکیڈیمی دہرہ دون میں کورس کامیابی سے مکمل کر کے آفیسر بننے والے 35 کامیاب کیڈٹ کی پاسنگ آئوٹ پریڈ منعقد ہوئی تو اکیڈیمی نے اس یادگار موقع پر ہر کیڈٹ کو اپنے گھر سے صرف دو افراد کو ہی اس تقریب میں شریک ہونے کی اجازت دی۔ قارئین اس موقع پر تیواری کی بیوی اور اس کی تین مہینے کی بیٹی موجود تھے۔
قارئین یہاں پر ایک اور بات نوٹ کی جانی چاہیے کہ زمانہ طالب علمی میں اپنے گھر کی ذمہ داری اٹھانے 50 روپئے روزانہ کی مزدوری پر کام کرنے والے بہار کے اس 28 سالہ نوجوان تیواری نے ثابت کیا کہ غربت، معذوری نہیں ہے کہ اس کو بہانہ بناکر ساری زندگی گھٹ گھٹ کر گذاری جائے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیا محنت کرنا آگے بڑھنا صرف غریبوں کی ضرورت ہے؟ کیا اس وقت ہم کچھ تیاری نہیں کرسکتے ہیں جب حالات معمول کے مطابق ہوں۔ کس چیز کی تیاری آیئے واضح کردوں کہ کرونا وائرس کے سبب جس طرح کے حالات پیدا ہوگئے اس کے بارے میں پچھلے برس بلکہ اس برس کے آغاز تک بھی لوگوں نے سونچا ہی نہیں تھا لیکن کویڈ 19 کے بعد کے پیدا شدہ حالات سے جن لوگوں نے سمجھوتہ کرلیا اور ان ناگہانی حالات میں آگے بڑھنے کی راہیں ڈھونڈ نکالی وہ آگے نکل گئے اور رونے والے آج نو مہینے کے بعد (ہندوستان میں لاک ڈائون کے نفاذ کے ) بھی مسلسل شکایات کرنے اور حالات کے بہتر ہونے کے منتظر ہیں۔

اخبارات میں خانگی اسکولس کے ٹیچرس کے حوالے سے آئے دن خبر یوں شائع ہو رہی ہیں جس میں خانگی اسکولس کے ٹیچرس کی پریشانیوں کا بار بار ذکر کیا جارہا ہے۔ قارئین کویڈ 19 سے ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا پریشان ہے۔ لیکن جن لوگوں نے حالات کی سنگینی کو سمجھا اور پھر باہر نکل آنے کے لیے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کیا وہ لوگ آج بھی خوش ہیں۔ ذرا سونچئے ان لوگوں کے بارے میں جو کسی زمانے میں طیارے اڑاتے تھے کسی زمانے میں کیا بس کویڈ 19 سے پہلے جو لوگ بطور پائلیٹ ایر لائنز میں کام کرتے تھے آج ان کی نوکریاں چلی گئیں کیونکہ کویڈ 19 سے سب سے خراب اور سب سے بری حالت ایر لائنس انڈسٹری کی ہوئی ہے۔ لاکھوں کی تنخواہ پانے والے کیپٹن اور پائلیٹ آج مہینوں سے اپنے گھر میں بیٹھے ہیں۔ کئی پائلیٹ توایسے ہیں جن کی نوکری چلی گئی ہے ۔ جن کی نوکری بچ گئی ان کو تنخواہ نہیں ہے۔ لیکن یہ پائلیٹ اور کیپٹن زمین پر رہ کر طیاروں کا خواب نہیں دیکھ رہے ہیںبلکہ بدلے ہوئے زمینی حالات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے اب بسیں چلاکر اپنے لیے روزگار پیدا کر رہے ہیں۔
صرف امریکہ میں نہیں آسٹریلیا میں بھی ایر لائنز کے پائلیٹ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ گریگ ہارپر گذشہ 25 برسوں سے طیارے اڑانے کا کام کرتے آرہے ہیں لیکن کرونا کے سبب پیدا شدہ حالات میں ان کی نوکری بھی جاتی رہی ہے لیکن دی وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق اپنے دو بچوں اور گھر کی دیگر ذمہ داریوں کو پورا کرنے انہوں نے دوسرا کام شروع کردیا ہے۔ گریگ ہارپر اب ہر ہفتہ 70 گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ یہ کام دو الگ الگ نوکریوں کا ہے۔ ایک نوکری میں گریگ ایک سوپر مارکٹ پر کام کر رہا ہے دوسری نوکری کے تحت گریگ کو ایک کنسٹرکشن سائٹ پر ٹریفک کی نگرانی کرنی ہے۔ وال اسٹریٹ سے بات کرتے ہوئے گریگ ہارپر جن کی عمر 52 برس بتلائی گئی کہا کہ یہ میری انا اور عزت کا سوال نہیں تھا بلکہ میں نے سونچا کہ میں پائلیٹ کی نوکری بھی اپنے بچوں کے لیے کر رہا تھا اب دو جگہ کام کر کے کمائی بھی اپنے گھر اور بچوں کے لیے ہی کر رہا ہوں۔ تو اپنے گھر والوں کے لیے کام کرتے ہوئے مجھے کوئی شرم نہیں آتی ہے۔
ذرا غور کیجئے ہمارے اطراف و اکناف کتنے نوجوان ہیں جو حالات کے سدھرنے اور موزوں مواقع کی تلاش میں مارچ 2020 سے آج تک منتظر ہیں۔ کسی کو اپنے والد کے کم بینک بیلنس کی شکایت ہے تو کسی کو گھر کی ذمہ داریاں پوری کرنے اور اچھا کمانے کے لیے باہر جانے کا موقع نہیں مل رہا ہے۔کسی کو گاڑی نہ ہونے کی شکایت ہے تو کسی کو کچھ اور شکایت ۔ ذرا سونچئے گا غور کیجیے گا ایسے ہی کرونا وائرس کا ایک سال ہونے کو آیا ہے۔ حالات بدلے ہوں یا نہ لیکن ہماری زندگی کا ایک قیمتی سال ضرور اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے وہ ہم سبھی مسلمانوں کی زندگیوں کو ضائع ہونے سے بچادے۔ ہمیں وقت کی قدر کرنے والا اور نعمتوں پر شکر ادا کرنے اور مسائل پر صبر کرنے والا بنادے۔ آمین ۔ یارب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]