غریبوں پر توجہ دینا ضروری

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
کھلی، مسابقتی اور فراخدلانہ معیشت نے قومی چمپینس پیدا کئے۔ اپنے آغاز کے موقع پر یہ چمپینس بہت چھوٹے تھے لیکن قومی اور بعض صورتوں میں عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل کی۔ اس سلسلے میں جو نام فوری طور پر ہمارے ذہن میں آتے ہیں، ان میں انفوسس، ٹی سی ایس، ریلائنس، ایچ ڈی ایف سی، آئی سی آئی سی آئی، ایل اینڈ ٹی، ٹاٹا، سیرم انسٹیٹیوٹ ، بائیوکان، ماروتی، بجاج، ہیرو، ٹی وی ایس اور دوسرے کئی شامل ہیں۔ راقم الحروف نے آپ کے سامنے مذکورہ کمپنیوں یا اداروں کے نام چمپین کی حیثیت سے پیش کئے جن کی شروعات چھوٹے پیمانے پر ہوتی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ قومی و بین الاقوامی سطح پر چمپین کی حیثیت سے منظر عام پر آئے۔ ان قومی چمپینس نے دولت پیدا کی (بہت ساری دولت کمائی) اور ان چمپین نے ایک متوسط طبقہ کو بھی جنم دیا جس نے ملازمین اور شیئر ہولڈرس کی شکل میں اپنے وجود کو منوایا۔ بڑے بڑے کاروبار یا تجارت کے باعث اوسط اور چھوٹے درجہ کے کاروبار بھی چل پڑے اور جوکھم لینے کی تہذیب یا کلچر کا جنم بھی ہوا اور برآمدات کے بارے میں جو مایوس پائی جاتی تھی۔ ہندوستانی صنعتوں نے مایوسی کے اس رجحان کو ختم کیا اور اُمید کی کرنیں پیدا کی۔ آدتیہ برلا نے ایک ہندوستانی مینوفیکچرنگ کمپنی کو بیرون ملک لے گئے اور بیرون ملک سرمایہ کاری کے ایک نئے رجحان کا آغاز کیا۔ جہاں تک ہمارے ملک کی قومی مجموعی پیداوار کا سوال ہے۔ ہندوستان کی قومی مجموعی پیداوار مستقل قیمتوں میں 1991-92ء کے دوران 25.4 لاکھ کروڑ روپئے تھی جو سال 2003-04ء میں دوگنی ہوکر 50.8 لاکھ کروڑ روپئے ہوگئی اور پھر یہ سال 2014ء میں دوبارہ دوگنی ہوکر 100 کروڑ روپئے سے زیادہ ہوگئی۔ فی کس آمدنی کے لحاظ سے یہ بہت زیادہ دولت ہے۔ موجودہ قیمتوں میں جو کہ سال 1991-92ء میں 6,835 روپئے تھی اور پھر سال 2021-22ء میں یہ بڑھ کر 1,71,498 روپئے ہوگئی۔
غریبوں کو ناکام کیا
ہندوستان میں متوسط طبقہ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اسی کے نتیجہ میں ہندوستان کے اوسط آمدنی والے ملک بننے کی بات ہورہی تھی حالانکہ میری نظر میں ہندوستان کا اوسط آمدنی کا حامل ملک بننا کچھ دور ہے۔ ہاں !حکومت اور اس کے حامی اس امر کو لے کر فخر کرتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کی پانچویں (ایک وزیر نے تو اسے چوتھی بڑی معیشت کہا) بڑی معیشت ہے لیکن یاد رکھئے ہندوستان ابھی بھی ایک متوسط آمدنی والا ملک نہیں بنا ہے۔ ایسے میں امیر یا دولت مند ملک ہونے کی بات نہ کریں۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت اور اس کے ذمہ دار ہندوستانی معیشت کے 5 کھرب ڈالرس تک پہنچنے کی باتیں کرنے لگے تھے اور اب بھی کررہے ہیں تاہم میری نظر میں یہ بے معنی Goal Post ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہندوستانی معیشت رینگتی ہے (سست روی کا شکار ہے) تو وہ ایک نہ ایک دن اس سنگ میل تک پہنچ جائے گی اور اسے پار کرے گی (اُسی طرح جس طرح ایک سائیکل سوار کو دہلی سے آگرہ لے جائے گی جس طرح ایک رولس رائس کار دہلی سے آگرہ جاتی ہے لیکن دونوں کے سفر دونوں کی رفتار اور دونوں کے معیار میں کافی فرق پایا جاتا ہے) اسی طرح کی باتیں معاشی لحاظ سے غیرمتعلق ہیں جو چیزیں متعلقہ اور معنی خیز ہیں، وہ آمدنی اور دولت کی تقسیم، ترقی کے نمونہ کی پائیداری (مضبوطی) اور ماحولیات پر اس کے اثرات ہیں۔ بہرحال اس طرح کے اقدامات سے نچلی سطح کی 50% آبادی کیلئے ہندوستانی ترقی کی کہانی ناکام ہوگئی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آبادی کے نچلے 50% حصہ کو قومی آمدنی کا صرف اور صرف 13% حصہ ملتا ہے جبکہ آکسفام کے مطابق آبادی کا یہ حصہ قومی دولت کا صرف اور صرف 3% اپنے قبضہ میں رکھتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی ساری دولت مٹھی بھر دولت مندوں کے قبضے میں ہے اور آبادی کی اکثریت قومی دولت کے ثمرات سے محروم ہے۔ عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو کوئی دولت ٹیکس نہیں، کوئی وراثتی ٹیکس نہیں، زرعی آمدنی ٹیکس، محاصل کی جال سے باہر ہیں، رشتہ داروں کو تحفہ و تحائف قابل ٹیکس نہیں ہیں۔ ان ہی وجوہات کے باعث امراء (دولت مند) اپنی دولت (آمدنی) کو قریبی ارکان خاندان میں تقسیم کرنا بہت آسان سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف نیچے کی سطح کی 50% آبادی غریب ہے کیونکہ اس کے پاس بہت کم اثاثے ہیں۔ کم آمدنی ہے اور ترقی کی سمت پیشرفت کیلئے اس کے پاس کوئی موقع نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو لاکھوں کروڑوں غریب لوگ ہیں لیکن ہم ان پر کسی بھی قسم کی توجہ نہ دینے کا بہانہ کرتے ہیں۔ نیا تعمیر کردہ پل اور اس کی چمک دمک ہماری آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہیں لیکن ہماری آنکھیں اسی پُل کے نیچے سو رہے غریبوں کو نظرانداز کردیتی ہیں۔ ہم ان بچوں کو بھی نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں جو سڑکوں پر پینسلس، توال یا پھر کتابوں کے تیار کردہ جعلی نسخے فروخت کرتے پھرتے ہیں۔ وہ بہت غریب ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارے ملک میں یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد 30 کروڑ سے زیادہ ہے۔ وہ غریب ہیں۔ بہت غریب، ہر کسان جس کے پاس اوسطاً ایک ہیکٹر زرعی اراضی سے کم اراضی ہو ، وہ غریب ہے۔ ہمارے ملک میں کروڑہا لوگ ناقض غذا اور بھوک کا شکار ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں مناسب مقدار میں خوراک بھی نہیں ملتی۔ ہاں! یہ لوگ غریب ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غریب اور کمتر، اوسط طبقہ آبادی کے نچلے 50% حصہ پر مشتمل ہے۔
ہاں! موجودہ حکومت کی موجودہ پالیسیوں کے نتیجہ میں ملک کی دولت میں جو اضافہ ہورہا ہے، اس میں سے زیادہ تر دولت 50% بالائی سطح کے طبقہ کو جاری ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت نے آبادی کے نچلے 50% طبقہ کو فائدہ پہنچانے کیلئے اپنی پالیسیوں کو ازسرنو ترتیب نہیں دے رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں رائے پور میں کانگریس پلینری سیشن کا انعقاد عمل میں آیا جس میں راقم نے اس بات پر زور دیا کہ کانگریس کھلی، مسابقتی اور فراخدلانہ معاشی پالیسیوں کے تئیں پابند عہد رہے تاکہ اس 50% آبادی کو راحت پہنچائی جاسکے جو خط غربت زندگی گذار رہے ہیں۔ اگر کانگریس ایسا کرتی ہے تو یہ اس کیلئے فیصلہ کن مرحلہ ہوگا اور بلالحاظ مذہب و ملت غریب کانگریس کے حق میں آئیں گے، تاہم اگر نچلے طبقہ 50% کیلئے بہبودی اقدامات کریں گے تو ایسی صورت میں 50% اعلیٰ طبقہ خاموش نہیں رہے گا۔ اس کی مزاحمت کرے گا۔ ساتھ ہی سیاسی عطیہ دہندگان بھی مزاحمت کریں گے جو کانگریس کو دی جانے والی معمولی رقم (عطیات) کو روک لیں گے اور اس معاملے میں کانگریس کا ایسی سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیاسی مقام کیلئے جھگڑا ہوگا جن کے بنیادی حلقے ذات پات یا مذہب و ملت یا شناخت پر مبنی ہیں۔