پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس
ہمیں اس بات کی ستائش کرنی چاہئے کہ این ڈی اے حکومت نے محاصل ‘ فلاح و بہبود اور ووٹ حاصل کرنے میں آسانی پیدا کرلی ہے ۔ یہ اتنا ہی آسان تھا جتنا الیکٹورل بانڈ اسکیم تھا ۔ اس اسکیم کے تحت سرمایہ دارانہ نظام ‘ کرپشن اور انتخابی فنڈنگ کو اس انداز سے ایک دوسرے سے مربوط کردیا گیا جہاں ایسا لگتا ہے کہ کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ۔ پہلے تین امور محاصل‘ فلاح و بہبود اور ووٹس پر آتے ہیں۔ 2019 میں دوبارہ انتخاب کے بعد مودی حکومت نے عملا اصلاحات کو ختم کردیا ۔ معیشت میں ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں اور خانگی سرمایہ کاری کو جملہ گھریلو پیداوار کی شرح ترقی ‘ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور غربت کو ختم کرنے کا ذریعہ بنادیا گیا ۔ یہ ایک بہت مشکل کام تھا جس میں مستحکم معاشی مینجمنٹ کی ضرورت تھی ۔ اس کی بجائے حکومت نے ایک متبادل راستہ اختیار کیا تاکہ عوام کی تائید حاصل کی جاسکے ۔ یہ تھا فلاح و بہبود کا نظام ۔ کورونا وائرس کی آمد نے نئی پالیسی کے معاشی نظام کا جواز پیدا کیا ۔ ( اس پالیسی کے ذریعہ جو فلاحی اقدامات تھے وہ انتہائی غریبوں کی بھی اقل ترین ضروریات سے کم تھے ۔ مائیگرنٹ ورکرس کا مسئلہ رہا ۔ جو لوگ ملازمت سے محروم رہ گئے ‘ کئی چھوٹی اوراوسط تجارتوںکو بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور بیمار و معمر افراد ایک الگ نکتہ تھے جسے حکومت کی ناکامی سے تعبیر کیا جاسکتا تھا ) ۔
غیر منصفانہ ٹیکس پالیسی
مودی حکومت نے فوری طور پر توسیعی فلاح و بہبود کے نظام کو سیاسی اور انتخابی انعامات سے جوڑ دیا ۔ اہم ترین سوال یہ تھا کہ اس کیلئے ادائیگی کون کرے ؟۔
یہ ایک مہارت ہی تھی کہ یہ خیال اختیار کیا گیا کہ غریب عوام ‘ جو نئی فلاحی اسکیمات کے استفادہ کنندگان ہونے چاہئیں ‘ وہی نئے فلاحی اقدامات کیلئے فنڈنگ کرنے چاہئیں اور کرسکتے ہیں۔ ایک مساوی اور واجبی سماج میں حکومت امیروں اور کارپوریٹ سے کہہ سکتی تھی کہ وہ حکومت کو زیادہ ادائیگی کریں تاکہ نئی فلاحی اسکیمات کی فنڈنگ ہوسکے ۔ مودی حکومت نے اسکے برخلاف کام کیا ۔ اس نے کارپوریٹ ٹیکس کو 22 – 25 فیصد تک کم کردیا ۔ نئی سرمایہ کاری کیلئے ٹیکس کو انتہائی رحم دلانہ کرتے ہوئے 15 فیصد کردیا گیا ۔ حکومت نے شخصی انکم ٹیکس کی حد کو اعلی ترین سطح 30 فیصد پر برقرار رکھا ۔ اس کے علاوہ ٹیکس پر چار فیصد ایجوکیشن و ہیلت سرچارج بھی عائد کیا گیا ۔ ویلتھ ٹیکس کو ختم کردیا گیا اور موروثی ٹیکس کا تو کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا ۔ حکومت کیلئے مالیہ کے اصل ذرائع جی ایس ٹی اور فیول پر محاصل رہ گئے ۔ فیول پر محاصل میں حکومت کو ایک طرح سے سونے کی کان ہاتھ لگ گئی ۔ حکومت نے یہ بھی سمجھ لیا کہ سونا نکالنے کیلئے اسے کانکنی کی بھی ضرورت نہیں رہی ۔ ٹیکس دہندگان خود کھدوائی کریں گے اور سونا نکالیں گے اور اسے ہر منٹ اور ہر دن حکومت کے حوالے کریں گے ۔
بے تحاشہ شرحیں
جس وقت مودی حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا اس وقت پٹرول اور ڈیزل پر اکسائز ڈیوٹی کی شرحیں اور موجودہ شرحوں کا تقابل کریں اور ضروری فیول کی قیمتوں کا جائزہ لیں ۔
اور جو قیمتیں صارفین سے وصول کی گئیں اس وقت خام تیل کی قیمت 108 ڈالرس فی بیاریل کے قریب بھی نہیں تھی ۔ 108 ڈالرس فی بیارل کی قیمت 2014 میں تھی ۔ گذشتہ تین برسوں 2019-2021 کے دوران اوسط قیمت 60 ڈالرس فی بیارل کے آس پاس تھی ۔
پٹرولیم شعبہ سے مرکزی مالیہ میں جو حصہ آیا ہے وہ حیرت انگیز ہے ۔
سال کروڑ روپئے
2014-15 1,72,065
2015-16 2,54,297
2016-17 3,35,175
2017-18 3,36,163
2018-19 3,48,041
2019-20 3,34,315
2020-21 4,55,069
2021-22 4,16,794 ( اندازا)
جملہ 26,51,919
اکسائز ڈیوٹی
پٹرول ( فی لیٹر ) 9.20 روپئے
ڈیزل ( فی لیٹر ) 3.46 روپئے
قیمتیں
پٹرول فی لیٹر ( 71.41 ) روپئے
ڈیزل فی لیٹر ( 55.49 ) روپئے
ایل پی جی سلینڈر 410 روپئے
پی این جی 25.50 روپئے
سی این جی فی کیلو 35.20
26.90
21.80
101.81 – 116.72
96.07 – 100.10
949.50 – 1000
36.61
67.37 – 79.49
غریب عوام روزآنہ ادائیگی کرتے ہیں
اس رقم میں بڑا حصہ کسانوں کا ہے جو ڈیزل پمپ سیٹ اور ٹریکٹرس رکھتے ہیں۔ دو پہیہ گاڑیوں اور کاروں کے مالکین آٹو اور ٹیکسی ڈرائیورس نے ‘ ان کا استعمال کرنے والوںاور گھر چلانے والوں نے بھی بڑا حصہ ادا کیا ہے ۔ 2020-21 کے دوران جب لاکھوں صارفین نے مرکزی حکومت کو فیول ٹیکس کے طور پر 4,55,069 کروڑ روپئے ( اور مزید 2,17,650 کروڑ روپئے ریاستی حکومتوں کو ) ادا کئے تو صرف 142 امیر ترین افراد کی دولت میں 23,14,000 کروڑ روپئے سے 53,16,000 کروڑ روپئے تک کا اضافہ ہوا ۔ یہ اضافہ 30,00,000 کروڑ روپئے تک کا تھا ۔
غریب اور مڈل کلاس طبقہ پر ٹیکس کا بوجھ عائد کرنے اور بھاری رقومات وصول کرنے کے بعد مرکزی حکومت نے اس رقم کو عوام کو اضافی فلاحی اسکیمات فراہم کرنے پر خرچ کیا ۔ اور 2020 کے بعد سے اضافی راست بنیفٹ منتقلی کے تحت کتنی رقم ادا کی گئی ؟ ۔ ہم اس کی گنتی کرسکتے ہیں۔ مفت غذائی اجناس پر دو سال میں 2,68,349 کروڑ خرچ کئے گئے ۔ خواتین کو ایک وقت نقد الاؤنس پر 30,000 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ‘ کسانوں کو ہر سال 6000 روپئے کی ادائیگی پر سالانہ 50,000 کروڑ خرچ کئے گئے ۔ اس کے علاوہ خالص نقد منتقلی پرکچھ اخراجات ہوئے ہیں۔ ان اسکیمات پر سالانہ اخراجات 2,25,000 کروڑ سے زائد نہیںہیں جو مرکزی حکومت کی جانب سے وصول کئے جانے والے سالانہ فیول محاصل سے بھی کم ہے ۔
اسی لئے میں نے کہا کہ غریبوں کی فلاح و بہبود کے معنی یہ ہے کہ غریب عوام خود اپنی بھلائی کیلئے ادائیگی کریں۔ حالانکہ ملک میں دولتمندوں کی تعداد اور ان کی ٹیکس سے محفوظ دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔