بائیو ڈائیورسٹی فلائی اوور کار حادثہ میں شدید زخمی ، بے یار و مددگار لڑکی علاج و معالجہ کی محتاج
حیدرآباد ۔ 25 ۔ نومبر : ( سیاست نیوز) : اس لڑکی نے اپنے بچپن ہی سے سخت مشکلات کا سامنا کیا تھا اور اس کو تین وقت پیٹ بھرنے کے لیے بھی اتنا میسر نہ تھا جتنا درکار ہوتا ہے کیوں کہ اس کے والد ایک مزدور ہیں اور ان کی آمدنی اتنی زیادہ نہیں تھی کہ وہ اپنی اولاد کو تین وقت پیٹ بھر کھانا بھی کھلائیں اور انہیں اعلیٰ تعلیم سے بھی آراستہ کریں ۔ مگر ان تمام پریشان کن حالات کے باوجود اس باہمت لڑکی نے بی ٹیک کی تعلیم مکمل کرلی تھی اور چند دن قبل حیدرآباد منتقل ہو کر ایک ہاسٹل میں رہتے ہوئے وہ لڑکی خصوصی کورس کرتے ہوئے ہی ملازمت کی تلاش میں سرگراں تھی اور بروز ہفتہ ایک کمپنی میں ملازمت کے لیے انٹرویو دے کر کامیاب بھی ہوگئی تھی اور وہ لڑکی ملازمت ملنے کی خوش خبری بذریعہ فون اپنے والد جو اننت پور ( اے پی ) میں رہتے ہیں انہیں خوشی خوشی دے رہی تھی کہ اچانک فلائی اوور سے حادثاتی طور پر ایک کار نیچے گر جاتی ہے اور وہ لڑکی اس کار کی زد میں آکر شدید زخمی ہوجاتی ہے اور شدید طور پر زخمی لڑکی کو دواخانہ منتقل کرنے کے بعد پھر دوبارہ وہاں پلٹ کر بھی نہیں دیکھتی ہے اور اب وہ لڑکی دواخانہ میں اپنی زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق کبریٰ بیگم ( 23 ) جو بائیو ڈائیورسٹی فلائی اوور کار حادثہ میں شدید زخمی ہے دواخانہ کیر میں زیر علاج ہے ۔ اننت پور آندھرا پردیش کے رہنے والے جناب عبدالعظیم ایک مزدور ہیں جو روزانہ کی محنت کے ذریعہ اپنے افراد خاندان کی کفالت کرتے ہیں جنہیں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے اور حادثہ کی اطلاع ملتے ہی وہ معہ اہلیہ کے اننت پور سے حیدرآباد پہنچے ہیں اور وہ لوگ دواخانہ میں داخل ہوتے ہی دواخانہ انتظامیہ نے ان کے ہاتھ میں 1,10,000 روپیوں کا بل تھما دیا اور ساتھ ہی کہا کہ ان کی لڑکی کے سارے بدن پر شدید زخم آئے ہیں اور آپریشن کے لیے 5 لاکھ کے اخراجات ہوں گے جو ادا کرنے کے بعد ہی علاج کیا جائے گا حالانکہ 1,10,000 کی دی گئی بل کی ادائیگی کے لیے ہی انہوں نے شہر میں موجود اپنے ایک رشتہ دار سے 30 ہزار روپئے قرض حاصل کیے ہیں جب کہ مزید 5 لاکھ کے لیے عبدالعظیم نے اپنے ہر ایک جانے پہچانے سے بذریعہ فون رابطہ کیا مگر انہیں کہیں سے بھی کامیابی نہیں ملی ۔ اس کے بعد اس زخمی انجینئر لڑکی کے والدین مایوسی کے عالم میں دواخانے کے روبرو خاموش سارا دن بیٹھے رہے اور وہ سخت پریشان ہیں کہ علاج کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں ہے کیسے اپنی نوجوان انجینئر زخمی لڑکی کا علاج کروائیں گے اور ان کا کہنا ہے کہ ہم بالکل غریب لوگ ہیں اور ہمارے پاس اتنی استطاعت نہیں ہے کہ ہم اپنی انجینئر زخمی لڑکی کا علاج کرواسکیں لہذا ہم اہل خیر درد مند قوم و ملت کے افراد کے ساتھ ساتھ حکومت تلنگانہ اور حکومت آندھرا پردیش سے عاجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ ہماری انجینئر لڑکی کا علاج کرواتے ہوئے اس کی زندگی کا تحفظ کریں ۔ واضح ہو کہ یہ لڑکی کیر ہاسپٹل گچی باولی میں زندگی اور موت کے درمیان شدید طور پر جدوجہد کررہی ہے اگر اس کی زندگی بچ جائے گی تو انشاء اللہ یہ لڑکی قوم کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوسکتی ہے ۔۔