غزوہ خندق کے موقع پر مسلمانوں نے ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں

   

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا خطاب

حیدرآباد ۔22؍سپٹمبر( پریس نوٹ) قریش کا لشکر مدینہ منورہ پہنچنے سے قبل مسلمانوں نے خندق کی کھدائی کا کام مکمل کر لیا اور بچوں اور عورتوں کو محفوظ قلعوں میں پہنچا دیا ۔قریش نے حییٔ بن اخطب کو خفیہ طور پر بنو قریظہ کے پاس بھیج کر ان سے یہ درخواست کی کہ وہ اس عہد کو توڑ دیں جو ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علہ و آلہ و سلم کے درمیان ہوا ہے ۔ قریش چاہتے تھے کہ بنو قریظہ بھی مسلمانوں کے مقابلہ میں قریش کے ساتھ ہو جائے۔ بنو قریظہ کے سردار نے پہلے تو انکار کیا لیکن جب اسے سمجھایا گیا کہ کہ قریش ، بنو غطفان اور دیگر قبائل کے لشکر کے آگے مسلمانوں کی شکست یقینی ہے تووہ مان گیا اور رسول اللہؐ سے کیا ہوا عہد توڑ دیا۔ رسول اللہؐ نے ’’حسبنا اللہ و نعم الوکیل (ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ کیسا اچھا کارساز ہے)‘‘کہا اور مسلمانوں کو اس بات سے آگاہ کیا۔مسلمانوں کے لئے یہ سخت آزمائش کی گھڑی تھی۔ اس وقت منافقین کا نفاق بھی کھل کر سامنے آگیا وہ انتہائی خوف زدہ ہو گئے اور مختلف قسم کے حیلے بہانے کر کے میدان چھوڑنے لگے۔لیکن مخلص مسلمانوں کی یہ کیفیت تھی کہ وہ ہر حال میں دشمنوں کا سامنا کر کے راہ حق میں ہر طرح کی قربانیاں پیش کر کے اللہ کے حضور سرخروئی کے طالب اور رسول اللہؐ کی خوشنودی کے حصول کی متمنی تھے۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میں ان حقائق کا اظہار کیا۔وہ اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل (انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۳۷۳‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں واقعات غزوہ خندق پر اہل علم حضرات اور سامعین کرام کی کثیر تعداد سے شرف تخاطب حاصل کر رہے تھے۔ بعدہٗ ۳۰:۱۱ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت رسول اللہؐ کے ابن عم اور صحابی حضرت عقیل بن ابی طالبؓ ؓکے احوال شریف پر مبنی حقائق بیان کئے گئے۔ قراء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے اجلاس کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹرسید محمد حمید الدین شرفی نے ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت حضرت عقیل بن ابی طالبؓ کے احوال شریف کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت عقیلؓ بنو ہاشم کے چشم و چراغ، حضرت ابو طالب کے فرزند، سردار مکہ حضرت عبد المطلب کے پوتے، طالب، جعفرؓ و علی کرم اللہ وجہہ کے بھائی تھے۔ طالب،حضرت عقیلؓ سے عمر میں زیادہ تھے حضرت عقیلؓ حضرت جعفرؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بہ لحاظ سن و سال کلاں تھے۔ ان کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد ؓ تھیں۔ باپ اور ماں دونوں طرف سے ہاشمی تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اگرچہ عمر میں اپنے تمام بھائیوں سے چھوٹے تھے لیکن سعادت ایمان میں سبقت رکھتے تھے۔ حضرت عقیلؓ نے اپنے والد کا ورثہ اپنے بڑے بھائی طالب کے ساتھ سنبھالا تھا۔ حضرت عقیلؓ صلح حدیبیہ سے پہلے سعادت ایمان سے مالا مال ہو گئے اور انھیں غزوہ موتہ میں شرکت کا اعزاز بھی ملا۔ انھوں نے از ابتداء کبھی بھی حضور اکرم ؐ کی مخالفت نہ کی یہاں تک کہ وہ بدر میں آنا نہیں چاہتے تھے مگر زبردستی مشرکین کے ساتھ بدر میں لاے گئے تھے۔ ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے بتایا کہ رسول اللہؐ سے والہانہ محبت اور شیفتگی نے حضرت عقیلؓ کو فضیلت خاص سے نوازا تھا۔ خوف خداوندی، اتباع رسالتؐ اور مسلمانوں کی خیر خواہی حضرت عقیلؓ کی خاص پہچان بن گئی تھی۔ حضرت عقیلؓ نے خلفاء ثلاثہ کے بعد اپنے برادر خرد حضرت علی ؓ بحیثیت امیر المومنین دیکھا اور اس بات پر ہمیشہ مسرور اور دعاگو رہے۔ حضرت علی ؓ کے لئے ان کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ میرا بھائی حالت دینی میں میرے واسطے بہتر ہے۔ حضرت عقیلؓ نہایت متقی، پرہیزگار ، سخی اور غربا پرور تھے ان کے گھر میں بہت سے لوگ رہا کرتے تھے اسی وجہ سے بقیع میں ان کا مکان ربّہ سے مشہور تھا۔ آخر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے چند برس بعد حضرت عقیلؓ نے وفات پائی۔ کثیر الاولاد تھے۔ ان کے فرزندوں میں حضرت مسلم بن عقیل مشہور ہیں جنھیں حضرت سیدنا امام حسینؓ نے کوفہ روانہ کیا تھا اور حضرت مسلمؓنے وہیں جام شہادت نوش کیا۔