یو اے ای میں مقیم فلسطینی تارکین وطن کی بے بسی
دْبئی: متحدہ عرب امارات میں تقریباً 2 لاکھ فلسطینی مرد و خواتین مقیم ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں انسانی ہمدردی کی بناء پر اماراتی حکومت نے قیام کی اجازت دے رکھی ہے۔ جبکہ ہزاروں اچھی ملازمتیں کر کے اپنے گھر والوں کی کفالت کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے حالیہ جارحیت نے دْنیا بھر کے حساس انسانوں کو خون کے آنسو رْلا دیا ہے۔امارات میں مقیم فلسطینی بھی اپنی بہنوں بھائیوں اور ننھے مْنے معصوم بچوں پر توڑی جانے والی بربریت پر پھٹ پڑے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم لاچار ہیں۔ ہمارا فلسطین جل رہا ہے، ہم وطن شہید ہو رہے، مگر ہم سوائے رونے کے کیا کر سکتے ہیں۔ دْبئی میں تعمیراتی شعبے سے منسلک 33 سالہ احمد جو 16 سال پہلے اپنے گھر والوں سمیت یو اے ای منتقل ہو گیا تھا،نے اس کرب کا اظہارکیا۔۔ دْبئی میں ہیومن ریسورسز کے شعبے میں ملازمت کرنے والی فلسطینی خاتون لینا ابو صابرہ نے روتے ہوئے کہا’’غزہ میں شہادتیں دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔مجھ میں یہ سب وحشیانہ مناظر دیکھنے کی اب تاب نہیں رہی، اس لیے ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ میری پیدائش فلسطین میں نہیں ہوئی ہے۔ میں 2012ء میں اْردن سے یو اے ای منتقل ہوئی تھی۔ میرا دل غمزدہ ہو گیا ہے۔اسرائیل کی فلسطینیوں پر بمباری بلاجواز اور قابل مذمت ہے۔‘‘ایک اور 29 سالہ فلسطینی اکاؤنٹنٹ محمد الفانی نے کہا کہ یا تو ہم لاچار ہو کر یہ سب دیکھتے رہیں یا پھر اپنی دھرتی کی آزادی کے لیے اْٹھ کھڑے ہیں۔ کئی دہائیوں سے اسرائیلی قبضے میں ہماری اذیت بھری زندگی جانے کب تک ایسے ہی رہے گی۔ بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ کو مداخلت کر کے اسرائیلی جارحیت کو ہمیشہ کے لیے رْکوانا ہو گا۔اس کے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں۔ مگر بدقسمتی سے امریکی ایسا کبھی نہیں کریں گے۔