غزہ جنگ بندی دنیا کو راحت

   

رامچندر گوہا
غزہ میں جنگ بندی ہوگئی ہے۔ 7 اکٹوبر 2023ء سے جاری اس تباہ کن جنگ نے صرف اور صرف انسانیت کو رسواء کیا۔ معصوم زندگیوں کے خاتمہ پر ساری دنیا میں گہری تشویش ظاہر کی گئی خاص طور پر حقوق انسانی کی تنظیموں، حقوق انسانی کے جہدکاروں اور یہاں تک کہ مختلف ملکوں کی حکومتوں نے غزہ میں جس طرح جانی اتلاف ہوا اس کے خلاف آواز اُٹھائی، احتجاجی مظاہرے کئے۔ دوسری طرف ایسے ممالک بھی تھے جنھوں نے اسرائیل کی تائید میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ بہرحال چاہے کسی کی قومیت کچھ بھی ہو، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو، ایک بات ضرور ہے کہ ہر سمجھدار، عقلمند اور دانش مند اور زندہ ضمیر انسان کو یہ جان کر سکون محسوس ہونا چاہئے کہ آخرکار غزہ میں جنگ بندی ہو ہی گئی۔ حماس نے اس کے قبضہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا۔ یہ سطور لکھے جانے تک اسرائیلی یرغمالی جنھیں ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا اپنے اپنے گھروں کو پہونچ گئے ہوں گے۔ اپنے عزیز و اقارب سے مل گئے ہوں گے۔ اس طرح کے ملن کی خوشی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اسرائیلی فوج اور فضائیہ نے فی الحال اپنی وحشیانہ جنگ روک دی ہے نتیجہ میں اب بھوک سے تڑپنے بلکتے مظلوم فلسطینیوں بالخصوص بچوں اور خواتین تک خوراک، ادویات اور دوسرے امدادی سامان پہنچ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ہر سمجھدار شخص اس وقت یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ جنگ بندی صرف اس تباہ کن جنگ کے خاتمہ میں اٹھایا گیا پہلا معمولی قدم ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہاں امن و انصاف کی راہ اب بھی دشوار و پیچیدہ ہے یعنی امن کی منزل اب بھی بہت دور ہے اور امن کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں پائی جاتی ہیں۔ یہ بھی ایک حسن اتفاق ہے کہ جنگ بندی سے قبل کے ہفتوں میں راقم الحروف دو کتابوں کا مطالعہ کررہا تھا۔ ہر کتاب میں کچھ ایسے متاثرکن اقتباسات شامل ہیں جو اس امر سے متعلق ہیں کہ جنگ بندی کے بعد کیا ہونا چاہئے۔ میں جن دونوں کتابوں کا ذکر کررہا ہوں وہ 1980ء کے دہائی کے اوائل میں ضبط تحریر میں لائی گئیں اور دونوں میں اہم واقعات کا احاطہ کیا گیا۔ ان دونوں کتابوں کا دائرہ کار بہت وسیع ہے جس میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تنازعہ صرف ایک پہلو کے طور پر آتا ہے پھر بھی ان کتابوں میں جو کچھ کہا گیا وہ آج بھی قابل غور ہے۔ پہلی جو کتاب ہے جنوبی افریقہ کے مشہور و معروف مجاہد آزادی جوسلوو کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔ سلوو کی لتھوانیا میں پیدائش ہوئی اور جب 1930ء کی دہائی میں یوروپی ملکوں میں یہودیوں پر ظلم و جبر کے واقعات بڑھ گئے تب وہ اپنے خاندان کے ہمراہ لتھوانیا سے نقل مکانی کرتے ہوئے جوہانسبرگ منتقل ہوکر وہیں آباد ہوگئے جہاں وہ 1960ء کی دہائی کے اوائل تک وقفہ وقفہ سے مقیم رہے پھر جلاوطنی اختیار کرلی۔ نسل پرستی کے خاتمہ کے بعد وہ جنوبی افریقہ واپس ہوئے اور کچھ عرصہ کیلئے نیلسن منڈیلا کی کابینہ میں وزیر امکنہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ آپ کو یہ بتادیں کہ ان کی موت کینسر کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے باعث ہوئی۔