غزہ جنگ کے بعد برطانیہ میں قبولِ اسلام میں غیر معمولی اضافہ

   

عیسائیت کادائرہ سکڑرہاہے، فلسطینیوں کی مزاحمت صبر و تحمل سے متاثر افراد نے گہرے مطالعے اور تجربے کے بعد دین حنیف کو گلے لگایا

لندن ۔ 6 ڈسمبر (ایجنسیز) لندن سے شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غزہ کی جنگ اور عالمی سطح پر جاری تنازعات نے برطانیہ میں اسلام قبول کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ یہ تحقیق برطانوی ادارے ’’انسٹی ٹیوٹ فار دی امپیکٹ آف فیتھ اِن لائف‘‘ یا (IIFL) نے تیار کی ہے، جو حال ہی میں اس کے آفیشل پلیٹ فارم پر شائع ہوئی۔تحقیق کے مطابق عالمی تنازعات نہ صرف لوگوں کو مذہب پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر رہے ہیں بلکہ خاص طور پر اسلام کی جانب ان کی توجہ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ادارے نے بتایا کہ ان کے نتائج میڈیا میں سامنے آنے والی ان رپورٹس کی بھرپور تائید کرتے ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ 2023 اور 2024 میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد برطانیہ میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔تحقیقی ٹیم کے مطابق میڈیا میں یہ تاثر پہلے ہی مضبوط ہو چکا تھا کہ غزہ میں جاری انسانی المیہ، ظلم و جبر کے مناظر اور فلسطینیوں کی مزاحمت اور صبر و تحمل نے برطانوی معاشرے میں اسلام کے تصور عدل اور روحانی پیغام کے بارے میں دلچسپی بڑھائی ہے۔تازہ تحقیق نے اس تاثر کی سائنسی بنیاد پر تصدیق کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق عالمی جنگیں اور سیاسی تنازعات لوگوں کو اسلام کے قریب لے آ رہے ہیں۔اس تحقیق میں ان 2,774 برطانوی شہریوں کی آراء شامل کی گئیں جنہوں نے یا تو نیا مذہب اختیار کیا یا مکمل طور پر مذہب ترک کر دیا۔نتائج کے مطابق 20 فیصد افراد نے اسلام عالمی تنازعات کے اثرات کے باعث قبول کیا۔ 18 فیصد نے اسلام کو ذہنی سکون اور نفسیاتی وجوہات کی بنا پر اختیار کیا۔محققین نے بتایا کہ بہت سے لوگوں کے لیے مذہب کا انتخاب صرف رسومات کا معاملہ نہیں، بلکہ مقصد، معنویت اور روحانی سکون کی تلاش بھی ہے اور انہیں یہ سب اسلام میں زیادہ واضح نظر آیا۔ اس لیے انہوں نے سوچ سمجھ اور گہرے مطالعے اور تجربے کے بعد دین حنیف کو گلے لگانے کا فیصلہ کیا۔تحقیق کے ساتھ ہی برطانیہ کے قومی اعداد و شمار کے دفتر نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں پہلی بار عیسائی آبادی 50 فیصد سے کم ہوگئی ہے۔2021 کی مردم شماری کے مطابق صرف 46.2 فیصد برطانوی خود کو عیسائی کہتے ہیں۔ 2011 کے مقابلے میں یہ تعداد 13 فیصد کم ہے۔ مجموعی طور پر ساڑھے 27 ملین افراد نے خود کو عیسائی ظاہر کیا، جبکہ 2011 میں ایسے افراد کی تعداد 33 ملین تھی۔برطانوی میڈیا، بالخصوص ٹیلیگراف اخبار اس رجحان کو ایک تاریخی تبدیلی قرار دیتا ہے اور اسے مذہبی و سماجی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی کا اشارہ سمجھتا ہے۔برطانیہ میں مساجد کے اندر اور باہر مسلمان ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ صرف سوشل میڈیا کی خبروں تک محدود نہیں رہا، بلکہ مقامی مساجد اور اسلامی مراکز بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ گزشتہ دو برسوں میں اسلام قبول کرنے والوں کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔لندن کی مشہور ایسٹ لندن مسجد کے منتظمین کے مطابق روزانہ کئی غیر مسلم افراد نہ صرف اسلام کے بارے میں سوالات لے کر آتے ہیں بلکہ درجنوں لوگ باقاعدہ کلمہ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل بھی ہوتے ہیں۔غزہ جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر پھیلنے والے ظلم، تباہی، فلسطینیوں کی استقامت، صبر و برداشت اور اجتماعی دعاوں کے مناظر نے بہت سے برطانوی شہریوں کے دلوں پر اثر کیا ہے۔کچھ افراد نے اپنی گفتگو میں اعتراف کیا کہ فلسطینیوں کے صبر نے انہیں قرآن پڑھنے پر مجبور کیا۔ اسرائیلی حملوں کی تصاویر نے انہیں حق و باطل پر سوچنے پر آمادہ کیا۔ اسلام کا تصور عدل اور ظلم کے خلاف کھڑا ہونا انہیں متاثر کر گیا۔برطانوی معاشرے میں یہ تبدیلی محض مذہبی نہیں بلکہ فکری اور سماجی سطح پر بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ عالمی تنازعات، خصوصاً غزہ کی جنگ نے برطانیہ میں اسلام کے بارے میں سوچ کو بدل دیا ہے۔ جیسے جیسے فلسطینی بحران شدت اختیار کرتا گیا، ویسے ہی برطانوی نوجوان طبقے سمیت مختلف طبقات میں اسلام کی طرف جھکاو بڑھتا گیا۔ اس کی تحقیق کو مختلف برطانوی اخبارات، تھنک ٹینکس اور اکیڈمک نیٹ ورکس ریفرنس کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جو اس کی قابلِ قبول ساکھ کو ظاہر کرتا ہے۔

غزہ منصوبہ کا دوسرا مرحلہ،رواں سال کے آخر تک ’امن کونسل‘ کا قیام

ریاض۔ 6 ڈسمبر (ایجنسیز) ایسے وقت میں جبکہ تمام نگاہیں امریکہ کی سرپرستی میں طے پانے والے غزہ معاہدے کے دوسرے مرحلے پر مرکوز ہیں، ایک مغربی سفارت کار اور ایک عرب عہدے دار نے بتایا ہے کہ سال کے اختتام تک ایک ایسی بین الاقوامی اتھارٹی کے اعلان کی توقع ہے جسے غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھالنے کا اختیار دیا جائے گا۔دونوں شخصیات نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اتھاریٹی ’’امن کونسل‘‘ کے نام سے جانی جائے گی اور اس کے سربراہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہوں گے۔ اس میں مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ممالک کے تقریباً بارہ رہنما شامل ہوں گے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ اتھارٹی اقوامِ متحدہ کی جانب سے تفویض کے تحت دو سال کے لیے غزہ کی پٹی کا انتظام چلائے گی جس میں توسیع کا امکان بھی موجود ہے۔دونوں شخصیات نے یہ بھی بتایا کہ فلسطینی ماہرین پر مشتمل ایک ٹکنوکریٹ کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا جائے گا، جو جنگ کے بعد غزہ کی پٹی کے روزمرہ انتظامات کی ذمے دار ہو گی۔مزید کہا گیا کہ اس مجوزہ منصوبے کا اعلان 2025 کے آخر میں ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی ملاقات کے موقع پر کیے جانے کا امکان ہے۔جہاں تک اُس بین الاقوامی استحکام فورس کا تعلق ہے جس میں کئی ممالک کی شمولیت کی توقع ہے تاکہ غزہ کی پٹی میں سکیورٹی کی ضمانت دی جا سکے، عرب عہدے دار نے بتایا کہ اس بارے میں بات چیت جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس فورس کی تعیناتی 2026 کی پہلی سہ ماہی میں شروع ہو سکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان دوسرے مرحلے پر مذاکرات بھی شروع ہوں گے، لیکن ان کے مطابق یہ مرحلہ مشکل ہو گا۔ خصوصاً حماس کے ہتھیاروں اور غزہ کی پٹی کے کچھ حصوں سے اسرائیلی انخلا کے مسئلے پر۔منصوبے کے دوسرے مرحلے میں تباہ حال غزہ کی پٹی کی دوبارہ تعمیر شامل ہے، لیکن مالیاتی ذرائع کے بارے میں ابھی واضح فیصلہ نہیں ہوا۔حماس نے گذشتہ روز اعلان کیا کہ وہ غزہ کی حکمرانی کے لیے ایک ٹکنوکریٹ کمیٹی تشکیل دینے پر رضامند ہے۔ تنظیم نے ایک بار پھر کہا کہ وہ غزہ کی پٹی پر حکمرانی سے چمٹی نہیں رہے گی۔ البتہ اسلحے کا مسئلہ کسی قومی فریم ورک اور اندرونی مکالمے کے اندر ہی زیرِ بحث آ سکتا ہے۔