غزہ معاہدہ کا دوسرا مرحلہ نیتن یاہو کیلئے پریشان کن ، امریکہ کا شدید دباؤ

,

   

’یارو! میں تو پھنس گیا‘

تل ابیب ۔ 24 اکٹوبر (ایجنسیز) گزشتہ دنوں اسرائیل میں اعلیٰ سطحی امریکی سفارتی دوروں سے واضح ہو چکا ہیکہ اسرائیلی وزیر اعظم امریکی دباؤ کے سائے میں ہیں۔ لہٰذا اب بنجامن نیتن یاہو خود کو امریکی دباؤ اور اپنی حکومت کے اندر موجود دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے درمیان گھرا ہوا پا رہے ہیں۔امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے جمعرات کو زور دیا کہ غزہ میں فائر بندی کو مستحکم کیا جائے اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی منصوبہ بندی کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد شروع کیا جائے۔اس دوسرے مرحلے میں غزہ کی تباہ شدہ پٹی کی تعمیرنو اور اسلحہ کے مکمل خاتمہ کا عمل شامل ہے۔ وینس نے وضاحت کی کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کا عمل وقت طلب ہے۔ ان کے مطابق اسے عرب و اسلامی ممالک کی مشترکہ فورسز کے ذریعہ عبوری مرحلے میں انجام دیا جائے گا، یہاں تک کہ فلسطینی فورسز خود یہ ذمہ داری سنبھال سکیں۔یہ صورتحال نیتن یاہو کیلئے ایک مشکل موڑ ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حماس کم از کم وقتی طور پر غزہ میں موجود رہے گی۔ اگرچہ اسرائیلی وزیر اعظم گزشتہ دو برس سے بار بار اس عزم کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ وہ اس تنظیم کو ’’کچل دیں گے‘‘ اور اس کی تمام عسکری صلاحیتیں ختم کردیں گے۔یہ منظرنامہ نیتن یاہو کیلئے سیاسی طور پر بھی شرمندگی کا باعث بن رہا ہے، خاص طور پر ان کے انتہا پسند اتحادیوں کے سامنے جن سے انھوں نے بارہا ’’مکمل فتح‘‘ کا وعدہ کیا تھا۔تعمیرِ نو اور حماس کے اسلحے کے خاتمہ کے علاوہ غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا کی تفصیلات بھی اب تک غیر واضح ہیں۔ نیتن یاہو نے جمعرات کی شب مارکو روبیو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان چیلنجوں پر قابو امریکہ اور اسرائیل کے باہمی تعاون سے پایا جا سکتا ہے۔ روبیو کا دورہ اس بات پر بھی مرکوز ہے کہ غزہ کی عبوری حکومت کیسا ڈھانچہ اختیار کرے گی … جیسا کہ ٹرمپ کے امن منصوبے میں تجویز کیا گیا ہے۔ منصوبے کے تحت فلسطینی ماہرین (ٹکنوکریٹس) پر مشتمل ایک عبوری انتظامیہ غزہ میں بین الاقوامی کمیٹی کی نگرانی میں کام کرے گی، جس کی تشکیل اور ارکان کے ناموں پر مشاورت جاری ہے۔ان تمام چیلنجوں کے علاوہ، نیتن یاہو کو بد عنوانی اور رشوت کے مقدمات کا بھی سامنا ہے۔یوں وہ چکی کے ایک پاٹ میں امریکی دباؤ اور دوسرے پاٹ میں اندرونی سیاسی دباؤ کے درمیان پسے ہوئے نظر آتے ہیں … وہ بھی ایک فیصلہ کن موڑ پر جہاں ہر سمت خطرہ ہے۔