غزہ میں اسرائیلی فوج کا مصنوعی ذہانت کا استعمال تشویشناک

   

اہداف کی نشاندہی کیلئے اسرائیل نے مصنوعی ذہانت کا بطور ہتھیار استعمال کیا: گوٹیرس
نیویارک : خبر رساں ادارہ اے ایف پی کے مطابق، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جمعہ کے روز ان رپورٹس پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ اسرائیل غزہ میں اپنے اہداف کی نشاندہی کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہا ہے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔ اے ایف پی نے کہا ہے کہ ایک غیر جانبدار اسرائیلی فلسطینی جریدے 972+ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں اہداف کی شناخت کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا استعمال کیا۔ اور بعض معاملات میں یہ کام 20 سیکنڈ سے بھی کم وقت میں کیا گیا جس میں انسانی نگرانی کا عمل بہت محدود تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوتریس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ ان خبروں سے بہت پریشان ہیں کہ اسرائیلی فوج نے اپنی بمباری کی مہمات میں اہداف کی شناخت کے لیے مصنوعی ذہانت کے ایک آلے کا استعمال کیا۔ خاص طور پر گنجان آباد شہری علاقوں میں، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر عام شہری ہلاک ہوئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ زندگی اور موت سے متعلق فیصلوں کے کسی حصے کو ، جو پورے خاندان کو متاثر کرتا ہو، کمپیوٹر کے حساب کتاب کے نظام کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے۔ اے ایف پی کے مطابق جریدے 972+ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے، اہداف کی شناخت سے متعلق آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے ایک آلے کا استعمال کر کے ہزاروں شہریوں کو قتل کرنے کے لیے منتخب کیا۔ اس عمل میں انسانی نگرانی انتہائی محدود تھی اور یہ ایک طرح سے قتل کی اجازت کی پالیسی تھی۔ رپورٹ میں اسرائیلی انٹیلی جینس کے چھ افسروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے لیونڈر نامی آلے نے، خاص طور پر جنگ کے ابتدائی دنوں میں فلسطینیوں پر بڑے پیمانے پر بم برسانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ جریدہ 972+ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ فوج کی کارروائیوں پر لیونڈر کی فراہم کردہ معلومات اس قدر حاوی تھیں کہ عہدے داروں نے انہیں انسانی فیصلے تصور کرتے ہوئے ان پر عمل کیا۔ اے ایف پی کے مطابق جریدے نے دو ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں فوج نے یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ لیونڈر کے ذریعہ شناخت کردہ حماس کے چھوٹی سطح کے ہر کارکن کو مارنے کے لیے 15 سے 20 تک عام شہریوں کی ہلاکت بھی جائز ہو گی۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق جریدے نے لکھا ہے کہ اگر ہدف حماس کا سینئر عہدے دار ہو تو کئی واقعات میں فوج نے اسے مارنے کے لیے 100 سے زیادہ عام شہریوں کو بھی ہلاک کرنے کی اجازت دی۔ اسرائیل کی فوج نے، جو آئی ڈی ایف کے نام سے موسوم ہے، جمعہ کے روز ان دعووں کو مسترد کر دیا۔ اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ آئی ڈی ایف، مصنوعی ذہانت کے اس نظام کو، جو دہشت گردوں کو شناخت کرتا ہے، یا اس بارے میں پیش گوئی کرتا ہے کہ آیا وہ دہشت گرد ہے، استعمال نہیں کرتا۔ اے ایف پی کے مطابق فوج کا کہنا تھا کہ اس کے بجائے وہ دہشت گرد تنظمیوں کے عسکری کارکنوں کے بارے میں انٹیلی جینس ذرائع سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو تجزیے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اسرائیلی فوج نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اگر اجتماعی ہلاکتوں کا خطرہ ہو تو وہ فضائی حملہ نہیں کرتی۔
اے ایف پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے عسکری ونگ کے حملہ کے نتیجے میں غزہ میں شروع ہونے والی جنگ پہلی ایسی ہلاکت خیز لڑائی نہیں ہے جس میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کا ذکر آیا ہے۔ اس سے قبل مئی 2021 میں غزہ میں 11 روز تک جاری رہنے والی جنگ میں بھی اہداف کا تعین کرنے کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا استعمال خبروں کا موضوع بنا تھا۔ جسے کمانڈروں نے دنیا کی پہلی آرٹیفیشل انٹیلی جنس جنگ کا نام دیا تھا۔ 2021 جنگ کے دوران اسرائیلی فوج کے سربراہ اویو کوچوی نے پچھلے سال ایک اسرائیلی نیوز ویب سائٹ ’وائی نٹ‘ کو بتایا تھا کہ فوج اہداف کی تلاش اور شناخت کے لیے مصنوعی ذہانت کا نظام استعمال کر رہی ہے اور یہ نظام ہر روز 100 نئے اہداف کی شناخت کرتا ہے۔ ایک سال پہلے یہ تعداد 50 تھی۔