غزہ میں اسرائیل کی درندگی کا سلسلہ جاری

   

Ferty9 Clinic

سوڈان میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل

امجد خان
غزہ میں جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی درندگی کا سلسلہ جاری ہے اور اسرائیل خاص طورپر فلسطینی بچوں کو نشانہ بنارہا ہے۔ حال ہی میں اسرائیل کے فضائی حملوں میں سو سے زائد فلسطینیوں نے جامِ شہادت نوش کیا اور بے شمار زخمی ہوئے ۔ شہدا او زخمیوں میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔ سو سے زائد شہداء میں 46 بچے شامل تھے ۔
افسوس صد افسوس کہ امریکہ جیسے ملک کا سربراہ یعنی صدر ڈونالڈ ٹرمپ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسرائیل کس طرح اپنے ایک سپاہی یا فوجی کے قتل کے جواب میں 100 سے زائد فلسطینیوں کو قتل کرسکتا ہے۔ٹرمپ بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل نے جوابی کارروائی کی ہے ۔اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک فوجی کے عوض سو سو فلسطینیوں کا قتل کس طرح کی جوابی کارروائی ہوسکتی ہے ۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو وہ جوابی کارروائی نہیں بلکہ اسرائیلی دہشت گردی ہے اور اتنی سی بات ڈونالڈ ٹرمپ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان حالات میں حیرت ہوتی ہیکہ وہ امریکہ کو MAGA ( دوبارہ عظیم بنانے ) کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس طرح کی سوچ و فکر کا حامل شخص کیلئے امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے اس سوال پر امریکی عوام کو بطور خاص غور کرنا ہوگا ۔
اسرائیل نے امریکی حمایت کے ذریعہ غزہ کو ایک طرح سے نیست و نابود کردیا ہے اور مسلم ممالک صرف زبانی جمع خرچ کرکے خود کو صرف اسرائیل کی مذمت تک محدود رکھے ہوئے ہیں۔ اُن کی ایمانی حمیت کہاں گئی ؟ یہ سوال خود اُن کے ضمیر کرنے لگے ہیں۔ شائد مسلمانوں کی حمیت ایمانی رخصت ہوچکی ہے اور دنیا میں جب بھی ایسے ہوا اﷲ عزوجل نے دوسری قوموں کو دین اسلام کے دامن میں جگہ دے کر اُنھیں عظیم بنادیا۔ بہرحال غزہ میں تباہی و بربادی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023 ء سے تاحال 68527 فلسطینی شہید ہوئے اور زخمیوں کی تعداد 170395 ہوگئی جبکہ غیرسرکاری اعداد و شمار میں شہداء اور زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کئی گنا زیادہ بتائی گئی ہے ۔
اسرائیل کو امریکہ کی ناجائز حمایت کے خلاف عالم اسلام کو خصوصی حکمت عملی طئے کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ ان ملکوں کو ڈراتا دھمکاتا ہے جو پہلے ہی سے امریکہ سے ڈرتے ہیں ۔ طالبان نے افغانستان میں امریکہ اور اُس کے ایک نہیں دو نہیں بلکہ 4 اتحادیوں ، عصری ٹکنالوجی اور جدید ہتھیاروں کا صرف اپنے ایمان کے ذریعہ مقابلہ کیا اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح امریکہ ذلیل و رسواء ہوکر افغانستان سے تخلیہ پر مجبور ہوا ۔
امریکہ پھر سے افغانستان پر خاص طورپر بگرام فضائی اڈہ پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ وہ ہر حال میں جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی اہم بگرام فضائی اڈہ کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اگر پاکستان منافقت کرتا ہے اور تاجک گروپس امریکہ کا ساتھ دیتے ہیں تو افغانستان میں طالبان حکومت کو بیدخلی کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے لیکن یہ مشکل بھی دکھائی دیتا ہے کیونکہ طالبان نے افغانستان کو ترقی کی سمت گامزن کردیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ افغان کرنسی پاکستان ہی نہیں بلکہ ہندوستانی روپیہ سے بھی زیادہ مضبوط و مستحکم ہے ۔ جہاں تک اسرائیلی درندگی کا سوال ہے اس نے فلسطینی شہداء کی نعشوں کو مسخ کیا جس کا ثبوت یہ ہے کہ اسرائیل نے جن فلسطینی قیدیوں کی نعشیں واپس کی ہیں اُن پر زخموں کے خطرناک نشانات پائے گئے ۔ فلسطینی یہ بھی الزامات عائد کررہے ہیں کہ اسرائیل نے درندگی کی تمام حدود پار کرلئے ہیں اور وہ شہداء کے جسمانی اعضاء کی چوری کا ارتکاب کیا ہے۔ الجزیرہ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں انکشاف کیا گیا کہ حال ہی میں اسرائیل نے 30 فلسطینی قیدیوں کی نعشیں واپس کی ہیں اُنھیں شدید اذیت پہنچائی گئی تھی ۔ اُن کے جسموں پر زخموں کے بے شمار نقصانات پائے گئے جبکہ اسرائیل خان یونس ( جنوبی غزہ ) میں مسلسل حملے کرتا جارہا ہے جبکہ شمالی غزہ شہر بھی اس کے حملوں کی زد میں ہیں۔
ایک طرف اسرائیل نے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہیں تو دوسری طرف سوڈان میں بھی حالات انتہائی ابتر ہیں۔ شمالی دارفور کے الفاشر میں RSF کے ہاتھوں قتل عام سے بچنے کیلئے لوگ راہ فرار اختیار کررہے ہیں لیکن وہاں انسانیت کے قتل اور ناقابل تصور تباہی و بربادی کے باوجود عالمی برادری مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ جاریہ ہفتہ میں 1500 تا 2000 افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے ۔ آپ کو بتادیں کہ الفاشر شہر سے سوڈانی فوج کے انخلاء کے ساتھ ہی شہر کے حالات انتہائی ابتر ہوگئے ہیں۔ خاص طورپر RSF کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد قتل عام شروع ہوا ۔لوگوں کو ان کے گھروں میں گھس کر قتل کیا گیا ۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2 دن میں 26 ہزار لوگ الفاشر سے تخلیہ کرچکے ہیںجبکہ دو لاکھ کے قریب افراد شہر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اپریل 2023 ء سے سرکاری اور پرائیویٹ ملیشیا کے درمیان لڑائی میں لاکھوں افراد ہلاک اور 1.20 کروڑ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ اس قدر تباہی و بربادی اور جانوں کے اتلاف کے باوجود عالمی برادری وہاں قیام امن کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام رہی ۔ عالمی برادری کو اس کی کوئی فکر نہیں ۔ عالم اسلام بھی بے حسی کا مظاہرہ کررہا ہے ۔ ویسے بھی سوڈان میں تیل کے وافر ذخائر موجود ہیں ، قدرتی وسائل سے بھی یہ ملک مالا مال ہے لیکن حکومتوں اور سیاستدانوں ( صاحب اقتدار شخصیتوں ) نے اسے بہت لوٹا ۔ بددیانتی کے ذریعہ ان لوگوں نے خود اپنے ملک کو تباہ کردیا ، اس کی معیشت تباہ کردی ۔