ایمسٹرڈیم : 14ستمبر ( ایجنسیز ) ڈچ روزنامہ de Volkskrant کی ایک تحقیق غزہ میں کام کرنے والے بین الاقوامی ڈاکٹروں نے بچوں میں گولیوں کے زخموں کے ایک پریشان کن رجحان کی اطلاع دی ہے، جس سے جان بوجھ کر نشانہ بنانے کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔اخبار نے امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے 17 ڈاکٹروں اور ایک نرس سے بات کی، جو اکتوبر 2023 سے غزہ کے چھ اسپتالوں اور چار کلینکوں میں کام کر رہے تھے۔ ان میں سے کئی بحران زدہ علاقوں جیسے سوڈان، افغانستان اور یوکرین میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ان میں سے پندرہ ڈاکٹروں نے de Volkskrant کو بتایا کہ انہوں نے کم از کم 114 بچوں کا علاج کیا، جن کی عمریں 15 سال یا اس سے کم تھیں، اور جنہیں سر یا سینے میں ایک ہی گولی لگی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر بچے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گئے۔ یہ کیسز 2023 کے آخر سے 2025 کے وسط تک 10 مختلف طبی مراکز میں دستاویزی طور پر درج کیے گئے۔امریکی ٹراما سرجن فیروز سدھوا نے مارچ 2024 میں غزہ کے یورپی اسپتال میں اپنے پہلے دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ 48 گھنٹوں کے اندر انہوں نے 10 سال سے کم عمر کے چار لڑکوں کا معائنہ کیا، جن کے سر پر ایک جیسے زخم تھے۔۔انہوں نے اخبار کو بتایاکہ “یہ کیسے ممکن ہے کہ یہاں اس چھوٹے سے اسپتال میں، 48 گھنٹوں کے اندر، چار بچے ایسے آئے جنہیں سر میں گولی لگی؟” اگلے 13 دنوں میں، انہوں نے مزید نو بچوں کو اسی طرح کے زخموں کے ساتھ دیکھا۔سدھوا نے بعد میں ایک ساتھی سے ملاقات کی، جس نے تصدیق کی کہ وہ دوسرے اسپتال میں تقریباً ہر روز ایسے ہی زخم دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ “یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے فیصلہ کیا: مجھے معلوم کرنا ہوگا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔”انٹرویو کیے گئے ڈاکٹروں نے زور دیا کہ ایسے زخم حادثاتی طور پر ہونے کا امکان نہیں رکھتے۔ اخبار سے بات کرنے والے فارنسک ماہرین نے کہا کہ یکساں نمونے ممکنہ طور پرنشانہ بازوں یا ڈرونز کے ذریعے نشانہ لے کر فائر کیے جانے کی نشاندہی کرتے ہیں۔