غزہ میں پہلی بار حماس کیخلاف نعرے بازی نے عینی شاہدین کو مبہوت کردیا

   

ایک ایسے وقت جب غزہ پر اسرائیل دوبارہ جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے، اس واقعہ سے دنیا حیرت زدہ

غزہ : عینی شاہدین کے مطابق غزہ میں پہلی بار جنگ بندی کے حق میں سینکڑوں مظاہرین نے احتجاج کیا اور اس دوران حماس کے خلاف بھی نعرے لگائے تاکہ حماس کو اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی پر مجبور کیا جائے۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ واقعہ منگل کے روز پیش آیا ہے۔ اس واقعہ کی خاصی اہمیت ہے کہ ایک ایسے وقت پر جب اسرائیل کے اندر اسرائیلی صدر اضحاک ہرزوگ سمیت غزہ میں قید اسرائیلیوں کے اہل خانہ اور حامی نیتن یاہو کی حکومت کی طرف سے غزہ پر دوبارہ جنگ مسلط کرنے کی منطق پر اظہار حیرت کر رہے ہیں، انہیں دنوں غزہ میں بھی جنگ مخالف آواز سنی جانے کی اطلاعات ملی ہیں۔تاہم غزہ سے یہ رپورٹ کسی خبر رساں ادارے یا میڈیا ہاؤس کے نمائندے نے براہ راست خود دیکھ کر رپورٹ نہیں کی بلکہ عینی شاہدین کے حوالے سے کہا ہے کہ سینکڑوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔عینی شاہدین کے مطابق زیادہ تر مرد مظاہرین تھے جو ‘ حماس آؤٹ’ کے نعرے لگا رہے تھے اور حماس کو دہشت گرد قرار دے رہے تھے۔ اتفاق ہے کہ نعرے بعینیہ وہی ہیں جو اسرائیل کا دیرینہ موقف رہا ہے کہ حماس کا غزہ میں وجود قبول نہیں اور حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ ان نعروں سے لگتا ہے کہ یہ نعرے حماس کے انتہائی مخالفین نہیں بلکہ دشمن کی آؤاز تھے۔عینی شاہدین کی رپورٹ میں اس احتجاجی مظاہرے کے علاقے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ علاقہ بیت لاھیہ بتایا گیا ہے۔ یہ احتجاج اسرائیل کی طرف سے از سر نو جنگ شروع کیے جانے کے ایک ہفتہ بعد کیا گیا ہے۔ اسرائیلی بمباری سے اب تک 792 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔سوشل میڈیا نیٹ ورک ‘ٹیلی گرام’ پر اس احتجاج کے لیے ایک اپیل منگل کے روز ‘ سرکولیٹ’ کی گئی تھی۔
اس مظاہرے سے متعلق مظاہرے میں شریک ایک شخص سید محمد نے کہا ‘مجھے نہیں معلوم یہ مظاہرہ کس نے منظم کیا تھا۔ ‘ تاہم وہ خوف زدہ نظر آتا تھا۔اس نے مزید بتایا کہ ‘ میں عوام کی طرف سے پیغام دینے کے لیے احتجاج میں حصہ لیا ہے۔ کیونکہ جنگ بہت ہو چکی ہے۔ میں نے وہاں دیکھا ہے کہ حماس کے لوگوں نے مظاہرے کو منتشر کرتے دیکھا۔’ایک اور شخص جو مظاہرے میں شریک ہوا اس کا نام مجیدی تھا۔ اس کا کہنا تھا لوگ اب تھک چکے ہیں۔’ اس نے یہ بھی کہا ‘ اگر حماس کے اقتدار چھوڑ دینے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے توعوام کے تحفظ کے لیے حماس اقتدار چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟منگل کی شام ‘ سوشل میڈیا آؤٹ لیٹ ‘ ٹیلی گرام ‘ نامعلوم ذریعے سے یہ اپیل جاری کی تھی کہ بدھ کے روز غزہ کے مختلف مقامات پر احتجاج کریں۔اسرائیل تسلسل کے ساتھ یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ غزہ میں 2007 سے اقتدار پر فائز حماس اقتدار سے الگ ہو جائے۔ ماہ ستمبر میں ستمبر میں’ فلسطین سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ’کا ایک سروے سامنے آیا تھا۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک طویل جنگ لڑنے کے بعد بھی 35 فیصد کی تعداد میں فلسطینی حماس کے حامی ہیں، جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے حق میں 26 فیصد فلسطینی ہیں۔اہم بات ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ترجمان نے ہفتے کے روز بیان دیا تھا کہ حماس فلسطینیوں کے تحفط کے لیے غزہ سے دستبردار ہو جائے۔ اتفاق سے یہ مطالبہ صرف فلسطینی اتھارٹی کا ہی نہیں۔ یہی اسرائیل اور امریکہ کا بھی مطالبہ ہے۔