غزہ میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار

   

غزہ، 25 جولائی (یو این آئی) غزہ میں اسرائیل کے بدترین مظالم جاری ہیں اور غذائی بحران شدت اختیار کر چکا ہے ، جہاں پانچ میں سے ایک بچہ غذائی کمی کا شکار ہے اور یہ کیسز روز بروز بڑھ رہے ہیں۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین ایجنسی (انروا) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق انروا کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے ایک ساتھی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘غزہ میں لوگ مردہ ہیں اور نہ زندہ، وہ چلتی پھرتی نعشیں ہیں۔’100 سے زائد بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی بڑے پیمانے پر قحط کی وارننگ دی ہے جبکہ حکومتوں سے کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے ۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں امداد کی سطح ‘انتہائی کم’ ہے اور یہاں بھوک کا بحران کبھی اتنا سنگین نہیں تھا، جتنا آج ہے ۔آج اپنے بیان میں انروا کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا کہ100 سے زائد افراد بھوک کی وجہ سے شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچے ہیں۔’ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری ٹیموں کو جو بچے ملے ہیں وہ لاغر، کمزور ہیں اور اگر ان کا فوری علاج نہ کیا گیا تو ان کی شہادت کا خطرہ ہے ،’ اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ‘انسانی امداد کے شراکت داروں کو غزہ میں بلا روک ٹوک اور بلا تعطل امداد پہنچانے کی اجازت دے۔ گزشتہ روز عالمی صحت تنظیم نے کہا کہ غزہ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھوک کا شکار ہے ۔ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے کہا تھا کہ ‘میں نہیں جانتا کہ آپ اسے سوائے بڑے پیمانے پر قحط کے اور کیا کہیں گے اور یہ صورتحال انسانوں کی پیدا کردہ ہے ۔غزہ کے شمالی علاقے میں 40سالہ ہانا المدہون نے بتایا کہ مقامی مارکٹوں میں کھانا اور دیگر سامان دستیاب نہیں۔انہوں نے بی بی سی کو واٹس ایپ پر بتایا کہ ‘اگر یہ موجود ہو تو وہ اتنی مہنگی قیمتوں پر ہوتا ہے کہ کوئی عام شخص انہیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔انہوں نے کہا کہ آٹا مہنگا اور مشکل سے ملتا ہے ، اور لوگ اسے خریدنے کیلئے ‘سونا اور ذاتی سامان’ بیچ دیتے ہیں۔ تین بچوں کی ماں نے کہا کہ ‘ہر نیا دن ایک نیا چیلنج لے کر آتا ہے ’ کیونکہ لوگ ‘کھانے کی چیزیں’ تلاش کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘اپنی آنکھوں سے میں نے بچوں کو کچرے کے ڈھیر میں کھانے کے ٹکڑے تلاش کرتے ہوئے دیکھا ہے ’غزہ میں ایک امدادی کارکن طہانی شہادہ نے کہا کہ لوگ ‘ایک، ایک گھنٹے کیلئے بقا کی کوششیں کر رہے ہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘سادہ چیزیں جیسے کھانا پکانا اور نہانا پرُتعیش چیزیں بن چکی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا ایک 8 ماہ کا ہے ، وہ نہیں جانتا کہ تازہ پھل کا کیا ذائقہ ہوتا ہے ۔اسرائیل نے مارچ کے اوائل میں ایک دو ماہ کے جنگ بندی کے بعد غزہ کو امداد کی فراہمی روک دی تھی، جزوی طور پر اس محاصرے کو تقریباً دو ماہ بعد نرم کیا گیا تھا، لیکن خوراک، ایندھن اور دوا کی کمی شدت اختیار کر گئی ہے۔اسرائیل نے امریکہ کیساتھ مل کر غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے امداد کا نیا نظام قائم کیا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق گزشتہ دو ماہ میں اسرائیلی فوج کے ظالمانہ حملوں میں امداد کے متلاشی ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔اس کے مطابق ان میں سے کم از کم 766 افراد جی ایچ ایف کے چار تقسیم مراکز کے قریب شہید ہوئے ، جو امریکی نجی سیکیورٹی کنٹریکٹرز کے ذریعے چلائے جاتے ہیں اور اسرائیلی فوجی علاقے میں واقع ہیں۔اس کے علاوہ مزید 288 افراد اقوام متحدہ اور دیگر امدادی قافلوں کے قریب شہید ہوئے ۔غزہ کے ایک ہاسپٹل میں پناہ گزین 19 سالہ بیوہ نجاح نے کہا کہ وہ خوفزدہ ہے کہ اگر امدادی مرکز گئی تو ‘گولی مار دی جائے گی’۔نجاح نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘میں امید کرتی ہوں کہ وہ ہمیں کچھ کھانے اور پینے کیلئے لائیں، ہم بھوک سے شہید ہو رہے ہیں، ہمارے پاس کھانے یا پینے کیلئے کچھ نہیں ہے ، ہم خیموں میں رہتے ہیں، ہم ختم ہو چکے ہیں۔غزہ میں ایک برطانوی طبی فلاحی ادارے کے ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹر عاصیل نے کہا کہ غزہ قحط کے قریب نہیں بلکہ حقیقت میں ‘قحط کا شکار ہو چکا ہے ’۔انہوں نے کہا کہ ‘میرے شوہر ایک بار (امدادی مرکز) گئے اور دوبارہ گئے ، اور پھر انہیں گولی مار دی گئی اور بس۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر ہمیں بھوک سے مرنا ہے تو مر جائیں، امداد کا راستہ موت کا راستہ ہے ۔غزہ میں ایک مارکیٹ کے تاجر ابو علاء نے کہا کہ وہ اور ان کے بچے ‘ہر رات بھوکے سوتے ہیں’۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہم زندہ نہیں ہیں، ہم مر چکے ہیں، ہم پوری دنیا سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ ہماری مدد کریں۔دیئرالبلح سے بی بی سی کو فون کرنے والی 8 ماہ کی حاملہ ولا فتحی نے بتایا کہ غزہ کے لوگ ‘ایک ایسی آفت اور قحط جھیل رہے ہیں جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا’۔انہوں نے بی بی سی کو دیئرالبلح سے کہا کہ ‘میں دعا گو ہوں کہ میرا بچہ میرے پیٹ میں ہی رہے اور ان مشکل حالات میں وہ دنیا میں نہ آئے