غلامی کیا ہے_______؟ حفاظت یار خان ندوی

,

   

قوموں کی تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انہوں معزول کر کے ” یتیھون فی الارض” کی سزا سنائی جاتی ہے ، مگر نعمت خوری، انعامات کی فراوانی، اور شب و روز کی حسب معمول گردش سے ، اس کا اندازہ تک نہیں ہو پاتا کہ ، ہم پر “مار” ڈالی جا چکی ہے، غلامی کا بندھن حسین و زریں کنگن نظر آتا ہے اور بدترین ذہنی غلامی کا وہ سلسلہ دراز ہوتا ہے کہ باجود تنبیہ در تنبیہ اور ریماینڈرز کے پوری قوم ” نحن ابناء اللہ و احبائہ ” کی نشہ آور نفسیات میں گرفتار ہی رہتی یے، اس لئے خدا بھی خارق عادت طور پر ان کے ذہن و شعور میں کوئی انقلاب برپا نہیں کرتا ، بلکہ زبان نبوت کی تصریح کے مطابق ” تدع الحلیم حیران” کا ہر چہار سو منظر ہوتا ہے _

       یہ پریشاں فکری اور عملی “سرگردانی” ان کا مقدر اسی لئے

بنتی ہے ، تاکہ ان مشکل حالات سے جوجھ کر ، پدرم سلطان بود کے زمزے بھلا کر آئندہ جو نسل تیار ہو وہ زمینی ہو، صحرا کی سختیوں میں پلی ہو، تاکہ حالات کے رخ کو نہ صرف پہچان سکے بلکہ ان کا رخ پھیر دے _

        راقم الحروف اپنی تماتر بے بضاعتی اور کوتاہ علمی کے اعتراف کے ساتھ، قیادت کے مختلف دھڑوں کے قریبی مشاہدہ کے بعد اس امر کے اعلان میں میں کچھ باک محسوس نہیں کرتا کہ ملت اسلامیہ ہندیہ فی الوقت ” دو حرفی/بے سمتی” کا شکار ہے ، عوام تو عوام خواص کو بھی ” ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا” ، قیادت اپنے تماتر اخلاص کے باجود اس سرے کو پکڑنے میں ناکام ہے جہاں سے ” شروع کیا جائے” ، باطل کا قافلۂ تیز گام اپنے خدم و حشم کے ساتھ سو سالہ مسافت طے کر چکا اور اور ہم ” آباء و اجداد اور سلاطین ” کی بوسیدہ گدیوں پر ٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھے ہیں _

          یہ وہ نوشتۂ دیوار ہے جس کو پڑھنے کے لئے بہت صاحب بصیرت ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ہر ذی بصارت اس کا عینی مشاہدہ کر سکتا ہے ، اس کو یاس و نا امیدی کا نام دینا در اصل سر پر منڈلاتے طوفان کو بادل کا جھونکا سمجھنے کے مرادف ہے _

         یوم آزادی کا حال ہی ملاحظہ کرلیں، آج کے دن جہاں دل و دماغ خوب اس کی گواہی دے رہا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے لئے عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، پہلو خان کو مقدس کورٹ نے خوب انصاف دیا ہے! “ہبل دیوتا” بھی مشکل کشائی نہیں کر رہا، اس وقت بھی بعض قدسی نفوس فکری غلامی میں جکڑے ہیں اور زبان پر جھوٹ کے ترانے ہیں!

تو کیا اس سے بڑھ کر بھی مجبوری و بے کسی کی کوئی تصویر ہو سکتی ہے؟!!

مگر سر جوڑے کون؟! مل بیٹھے کون؟! یہاں تو قلعی دار جنگلی مرغوں کا سر پھٹول ہی ختم نہیں ہوتا، یہاں تو لوگ ابھی تک عباسی دور کی جھوٹی شان بگھار رہے ہیں اور نوجوان نسل کو خدا کے بھروسے چھوڑ کر دنیا سے جانے کو تیار ہیں _ فإلی اللہ المشتکی!

اقبال یاد آگئے :

غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی

جسے زیبا کہیں آزاد بندے _____ ہے وہی زیبا

بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر،

کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بِینا!

                           15/اگست/2019