فرانس میں اِسلاموفوبیا

   

سیاست فیچر
دنیا کے بیشتر ملکوں میں اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کے باوجود اسلام کی مقبولیت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ بعض ایسے ملک بھی ہیں جہاں دائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں نے نسل پرستی کا سہارا لینا شروع کردیا ہے۔ جرمنی، اٹلی اور فرانس یہاں تک کہ امریکہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ نے سفید فام باشندوں کی نسلی برتری کو موضوع بناکر اقتدار حاصل کیا۔ نسل پرستانہ سیاست کی تازہ ترین مثال اٹلی میں برادرس آف اٹلی نامی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی جیارجیا میلونی کا وزیراعظم بننا ہے۔ وہ 22 اکتوبر 2022ء سے عہدۂ وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں اور انہیں ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 45 سالہ میلونی اور ان کی پارٹی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دائیں بازو نظریات کی حامل ہیں۔ وہ بیرونی نژاد افراد بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں کافی تحفظات ذہنی رکھتے ہیں۔ حالانکہ 2019ء میں منظر عام پر آئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اٹلی میں مسلمانوں کی آبادی زائد از 14 لاکھ ہے اور اسلام، عیسائیت کے بعد اٹلی کا دوسرا بڑا مذہب ہے لیکن وہاں جیسے جیسے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، دائیں بازو کی برسراقتدار اور دوسری سیاسی جماعتوں میں ایک عجیب و غریب خوف پیدا ہورہا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال فرانس میں ہے۔ یہ ایک ایسا یوروپی ملک ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی ایک محتاط اندازہ کے مطابق 5.7 ملین (57 لاکھ ہے) اور یوروپ کے لحاظ سے یہ کوئی چھوٹی یا معمولی آبادی نہیں۔ حال ہی میں الجزیرہ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جن میں بتایا گیا کہ فرانس میں اس قدر بڑی مسلم آبادی کے باوجود مسلمانوں کے خلاف نسلی امتیاز کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر جب سے ملک میں صدارتی اور مقننہ کے انتخابات ہوئے ہیں تب سے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھے جانے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ کئی مسلمانوں کا یہ احساس ہے کہ انتخابات کے بعد سے ان کے طرز حیات پر رائٹ ونگ کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور انہیں ان کے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران حکومت فرانس کے سرکاری سکیورٹی بل اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے مقصد سے عائد کردہ پابندیوں کے خلاف مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کئے۔ فرانس میں مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اسکارف، برقعہ یا حجاب کے بہانے ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔فرانس کے بارے میں جو اطلاعات منظر عام پر آرہی ہیں، اس میں یہی بتایا جارہا ہے کہ صدر ایمانول میکرون دائیں بازو جماعتوں کے سامنے بے بس و مجبور ہیں۔ صدارتی انتخابات میں رائٹ ونگ امیدوار میرین لی پین کو دوسرا مقام حاصل ہوا اور انہوں نے 23.1% ووٹ حاصل کرتے ہوئے دوسرا مقام حاصل کیا۔ ان کا دوسرا مقام حاصل کرنے کے بعد فرانسیسی سیاست کا مستقبل بہت خطرناک دکھائی دیتا ہے۔ اس خاتون سیاست داں نے خود کو قوم پرست قرار دیا جس طرح ہندوستان میں قوم پرستی کے نام پر فرقہ وارانہ سیاست کا دور دورہ ہے۔ لی پین کو مخالف مہاجر اور مخالف اسلام سمجھا جاتا ہے۔ فرانس میں فی الوقت قوم پرستی اور فرانسیسی تہذیب و تمدن کے نام پر عوام میں نسل پرستانہ جذبات بھرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کوشش کسی بھی ملک و قوم کیلئے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ لی پین جیسی لیڈر کے ابھرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرانس میں تخریبی سیاست کو فروغ حاصل ہورہا ہے اور اسی سیاست کے بل بوتے پر سیاسی کامیابیاں حاصل کی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 2021ء میں ایک مرحلہ پر ایمانول مائیکرون کے وزیر داخلہ گیرالڈڈر مانین نے لی پین پر الزام عائد کیا کہ وہ اسلام کے تئیں نرم رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ اگر دیکھا جائے تو فرانس ایک سکیولر ملک ہے لیکن اب وہاں کے سیاست دانوں کی سوچ و فکر میں بھیانک تبدیلی آچکی ہے، حکومت کی ہر پالیسی سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لادینیت کا تحفظ کرنا چاہتی ہے اور اس میں شامل عناصر، اسلام کو ریاست اور فرانسیسی تہذیب کے متضاد سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی میں اُس وقت کے صدر نیکولس سرکوزی نے لادین عناصر کی تائید اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں کو اپنایا اور جب ایک آئی ایس آئی ایل حامی کے ہاتھوں سیموئل پیاٹی کا قتل ہوا، میکرون نے بھی وہی راستہ اختیار کیا جو نیکولس سرکوزی نے کیا تھا اور پھر مسلم سیول سوسائٹیز کے خلاف کارروائیاں شروع کی اور فرانسیسی یونیورسٹی میں اسلامور لفٹسٹ آئیڈیالوجی کے مبینہ وسعت کا جائزہ لینے کا آغاز کیا۔