پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
مجھے کستوری پر فخر ہے۔ انہوں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور ایک اچھی و ذہین طالبہ ہے جس نے ایک ایسے اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے جہاں ٹاملناڈو اسٹیٹ بورڈ کا منظورہ نصاب پڑھایا جاتا ہے، پھر کستوری نے ایک ایسی بات کہہ دی جس سے ہماری وزیر فینانس محترمہ نرملا سیتا رامن کو خاموش ہوجانا چاہئے تھا۔ وزیر فینانس کی بے تکی باتوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کستوری نے کہا ’’میں نے ہندی پڑھی ہے اور بعد میں سنسکرت (ٹامل نہیں) کو بھی ایک مضمون کے طور پر پڑھا ہے اور ذہین اسکول طالبہ کیلئے دستیاب ہر اسکالرشپ حاصل کی۔ اس مضمون کے لکھے جانے تک محترمہ سیتا رامن ، کستوری کے انکشاف کی تردید کرنے سے قاصر رہیں، جھگڑا اُس وقت شروع ہوا جب محترمہ نرملا سیتا رامن نے الزامات عائد کئے۔ برہمی کے عالم میں ان کا عجیب منہ بنانا، چہرہ پر غصہ کے آثار، سخت الفاظ کے استعمال نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ٹاملناڈو کے اسکولوں میں ایک مضمون کی حیثیت سے ہندی پڑھنے والے بچوں کو میرٹ اسکالرشپس دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔ ان کے خلاف امتیاز برتا جاتا ہے۔ غرض انہوں نے بہت ہی گھٹیا الزامات عائد کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ چھوٹی سی تھیں اور اسکول میں زیرتعلیم تھیں۔ اس وقت جو بھی ہندی پڑھتا، اس کا مذاق اڑایا جاتا اور سڑکوں پر اس کے ساتھ بدکلامی کی جاتی اور عملاً اس کا سماجی مقاطعہ یا بائیکاٹ کیا جاتا، اسے الگ تھلگ کردیا جاتا۔ انہوں نے انٹرویو لینے والی ماریہ شکیل کو بتایا کہ ٹاملناڈو میں بہت کچھ نہیں بدلا۔ انہوں نے ٹامل عوام کو ’’مہذب‘‘ قرار دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہندی کے تئیں نفرت جس نے اپنی پسند سے ہندی سیکھنے سے لوگوں کو روک دیا، وہ ’’غیرمہذب‘‘ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ہندی سے نفرت کو مسترد کرتی ہیں، چاہے وہ نفرت سیاسی جماعتوں کے باعث ہی کیوں نہ ہوں۔ اس معاملے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا ماخذ جسٹس پارٹی ہو یا پھر وہ دراوڑین ماڈل میں یقین رکھتے ہوں۔ دراصل اسکرین پر انتہائی مضبوط الفاظ کے ذریعہ انہوں نے یہ تاثر دیا کہ وہ جان بوجھ کر ایک لڑائی شروع کررہی ہیں۔ ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو ٹاملناڈو میں گزشتہ زائد از 55 برسوں سے حکمرانی کررہی ہیں۔ ان جماعتوں نے وزیر فینانس کو منہ توڑ جواب دیا۔ کانگریس ترجمان موہن کمارا منگلم نے وزیر فینانس کو چیلنج کیا کہ وہ اپنے الزامات کا ثبوت پیش کریں۔ انہوں نے وزیر فینانس کو طنز و طعنوں کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہماری وزیر فینانس دراصل No Data Available (NDA) گورنمنٹ سے تعلق رکھتی ہیں۔ باالفاظ دیگر نرملا سیتا رامن ایسی حکومت سے تعلق رکھتی ہیں جس کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں ہوتے۔ صرف دعوے اور وعدوں کے ساتھ ساتھ جملہ بازی پائی جاتی ہے۔ اس قدر سخت طنز کے باوجود کستوری نے جو کچھ بھی کہا، اس نے سب کو متاثر کیا۔ اگر ہم حکومت ٹاملناڈو کی سرکاری تعلیمی پالیسی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ (حکومت سہ لسانی فارمولہ کو مسترد کرتی اور دو لسانی فارمولہ پر چلتی ہے) یعنی حکومت ٹاملناڈو میں ٹامل اور انگریزی دو لسانی فارمولہ کو اپنائے ہوئے ہے۔ آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے دونوں اسی پالیسی پر سختی سے کاربند رہے ہیں تاہم ریاست کے ہزاروں امدادی و غیرامدادی خانگی اسکولوں میں ہندی کو ایک زبان کے طور پر پیش کیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت ان اسکولوں کے فیصلہ میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتی۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ ریاست میں سی بی ایس سی سے الحاق رکھنے والے 1417 اسکولس ہیں جبکہ آئی سی ایس ای سے ملحقہ اسکولوں کی تعداد 76 اور آئی ٹی سے ملحہقہ اسکولوں کی تعداد 8 ہے۔ اس کے ساتھ ریاست میں 41 اینگلو انڈین اسکولس بھی کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت کے 51 کیندرا وِدیالیہ اسکولس بھی چلائے جارہے ہیں اور ان تمام اسکولس میں ہندی بحیثیت ایک مضمون پڑھائی جاتی ہے۔ دوسری جانب ہندی بولنے والی ریاستوں میں ریاستی کومت کی غیرسرکاری پالیسی یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں یک لسانی فارمولہ پر عمل آوری کی جائے اور واحد زبان ہندی ہے۔ ان تمام وجوہات کے نتیجہ میں ہندی بولنے والی ریاستوں کے اسکولوں میں یک لسانی فارمولہ پر موثر انداز میں عمل آوری ہورہی ہے جبکہ ایسی ریاستوں میں جہاں مقامی زبان ہندی نہیں ہے (مثال کے طور پر گجراتی، مرہٹی، پنجابی) وہاں سہ لسانی فارمولہ اپنانے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر جنوبی ریاستوں کے معاملے میں جان بوجھ کر ایسا کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود جنوبی ہند کی ریاستوں میں ہزاروں لاکھوں طلبہ ہندی سیکھ رہے ہیں۔ وہ ایسے اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جہاں ہندی زبان سکھائی جاتی ہے اور اس کیلئے مختلف تنظیموں جیسے دکشن بھارت ہندی پرچار سبھا یا بھارتیہ ودیا بھون جیسی تنظیموں کی مدد لی جاتی ہے۔ہر سال ہزاروں لاکھوں طلبہ ہندی سیکھنے کے کورسیس میں داخلے حاصل کرکے ہندی پرچار سبھا (جس کا قیام 1918ء میں عمل میں آیا تھا) کی جانب سے اہتمام کردہ امتحانات لکھتے ہیں۔ سال 2022ء میں صرف ٹاملناڈو میں مختلف سطحوں پر 2,50,000 امیدواروں نے امتحانات لکھے۔ اس کے علاوہ نقل مکانی کے نتیجہ میں بھی لاکھوں کی تعداد میں ہندی بولنے والے افراد، جنوبی ہند کی ریاستوں میں آئے اور وہ اپنے گھروں میں ہندی میں بات کرکے خوش ہیں۔ یہ لوگ کام کے مقامات پر انگریزی اور مقامی زبان میں بات کرتے ہیں۔ وزیر فینانس کا یہ دعویٰ کہ ہندی کے تئیں نفرت پائی جاتی ہے یا ہندی سیکھنے والوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے، انہیں ستایا یا ان کے ساتھ فحش کلامی کی جاتی ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا اور اب بھی یہ صحیح نہیں ہے۔ وزیر فینانس نے ہندی سے نفرت کا الزام عائد کرتے ہوئے جو نیا محاذ کھولا ہے، اس سے تو ایسے لگتا ہے کہ وہ ایک بہت ہی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے جس کے ذریعہ ایک ایسا مسئلہ پیدا کرنا ہے جو عوام کو بآسانی بانٹیں اور پھر اس کا بآسانی استحصال کیا جاسکے اور اس حکمت عملی یا سازش پر عمل آوری کو یقینی بنانے کیلئے کثیر رقمی فنڈس مختص کئے گئے ہیں۔ دراصل بی جے پی آندھرا پردیش، کیرلا اور ٹاملناڈو میں اپنے قدم جمانے کی مایوسانہ کوشش کررہی ہے۔ وہ کرناٹک اور تلنگانہ میں اپنا موقف مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی خواہاں ہے۔ بظاہر تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ وزیر فینانس کو یہ کام دیا گیا ہے یا پھر وہ رضاکارانہ طور پر ایسا کررہی ہیں تاکہ آگ بھڑکائی جائے، ان میں ایک مسئلہ زبان کا بھی ہے۔ بی جے پی کیڈر پہلے ہی سے سڑکوں پر مسلم گروپوں سے لڑ رہا ہے۔ کیرلا، ٹاملناڈو، تلنگانہ اور کرناٹک میں بی جے پی لیڈروں کے جارحانہ موقف اختیار کرنے اور اشتعال انگیزی کیلئے حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ مجھے اس بات پر کوئی حیرت نہیں کہ وزیر فینانس نے زبان کے محاذ پر کام کرنے رضامندی ظاہر کی ہے۔ بڑھتی بیروزگاری، آسمان کو چھوتی مہنگائی، ڈالر کے مقابل روپئے کی گرتی قدر، غیرحساس تبصروں (ہم پیاز نہیں کھاتے) اور جی ایس ٹی، ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں سے مسلسل لڑائیوں کے باعث انہیں عوام کے دل جیتنے میں ناکامی حاصل ہوگی۔ اس لئے وہ تنازعات کے ذریعہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگی ہیں۔ مَیں وزیر فینانس کو ان کے نئے اوتار کیلئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ انہیں ہر موڑ پر کئی کستوریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔